This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

Saturday, 26 January 2013

تقلید کی حقیقت۔ از: مفتی عابد

تقلید کےلغوی معنی

تقلید کےمعنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔

تقلید کےاصطلاحی معنی

اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی : (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)

اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)

اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:

"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)

ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔

جائز و ناجائز اتباع و تقلید

تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔

علامہ خطیب بغدادی شافعی (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:

احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔

عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں، جیسے ایمان باللہ ،صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی جملہ صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرانا، اللہ کو عالم الغیب جاننا، حیات ممات میں اللہ کی قدرت کاملہ کا اقرارکرنا اقرا ربالسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ، اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کے برحق ہونےکی معرفت وغیرہ

عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو" (٧:٣)۔

اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں" (٢:١٧٠)

اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)

دوسری قسم: احکام شرعیہ کی ہے، اور ان کی دو قسمیں ہیں:

(۱) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے زنا و شراب کی حرمت ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں،

(۲)دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔

وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
" فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷)

پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"۔

یہ آیت شریفہ گو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے

العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب (لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ شان نزول کا سبب) اسلئے یہاں ’’ اہل الذکر‘‘ بوجہ عموم مسلمان بھی شامل ہیں،وہ کیسے،لیجئے

وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (نحل :۴۴) یہ ذکر(کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ،لوگوں کی جانب نازل فرمایا ہے ،آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ،شاید کہ لوگ غور و فکر کریں۔

یہاں ذکر سے مراد قرآن شریف ہے ۔اس لئے اہل ذکر میں مسلمان آتے ہیں۔

اور بحوالہ حدیث شریف:

(ترجمہ حدیث)حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگیا پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج (اہل علم سے) دریافت کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود كتاب الطهارة ، باب فی المجروح يتيم) (رقم الحديث: ۲۸۴:۳۳۶)

ان نصوص سے مقلد کے لئے مجتہد کی تقلید کرنا ثابت ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی اہل اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسا کہ نابینا، کہ اسکے پاس ذریعہ علم نہیں ہے تواس کو قبلہ کے سلسلے میں کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.وقس علیٰ ھٰذا، اور مجتہد کیونکہ علوم شرعیہ سے بخوبی واقف ہوتا ہے اس لئے اس کو کسی تقلید کرنا لازم نہیں۔اور اس طرح کی تقلید شخصیت پرست نہیں بلکہ احکام شرعیہ اور معرفت الٰہیہ کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔اور اگر کوئی کسی کی ذاتی طور پر تقلید کرتا ہے تو حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَاايّهَا الَذِينَ آمَنُوا اَطِيعُوا اللّهَ وَاَطِيعُوا الرّسُولَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹)

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ " کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے:

"اُولِي الْامْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)

ترجمہ: "اُولِي الْاَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔

ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:"اُولِي الْامْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)

ترجمہ: "اُولِي الْامْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔

فَان تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ اِلَى اللہ وَالرّسولِ ان كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللہ وَاليَوم الاخر ذٰلِكَ خَيرٌ وَاحسَنُ تَاويلًا

پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.

مفسر امام ابو بکر جصاص رح نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:

"’اولو الامر" ،‘کی اطاعت دینے کے فورا بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعا لیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع جو وہ بھی قرآن و سنّت کےبعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر (علماء) کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم"علماء و فقہاء" ہی کو ہو سکتا ہے، کیونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے. [ احکام القرآن (۲:۲۵۷)

فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:٤٣)

پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے.

اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے چناچہ علامہ آلوسی بغدادی (الحنفی) اس طرح فرماتے ہیں: اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے. اور علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) ’’اقلیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے [تفسیر روح المعانی: ١٤/١٤٨،سورہ النحل]

حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عالم (دینی بات جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جانتے ہوے خاموش رہے اور جاہل (نہ جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنی جہالت پر خاموش رہے، الله تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے (النحل:٤٣) [المعجم الأوسط للطبراني [بَابُ الْمِيمِ ]مَنِ اسْمُهُ مُحَمّدٌ، رقم الحديث: ٥٥١١(٥٣٦٥) بحوالہ تفسیردرمنثور] تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "’’اولی الامر‘‘ " کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔

تقلیدِ شخصی

تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے، یعنی کسی ناواقف عامی (غیر عالم شخص) کا کسی متعین شخص کے علم و کمال پر بھروسہ کر کے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں.

مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:

"عَنْ مُعَاذٍ اَنّ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ بَعَثَ مُعَاذًا ِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِيا(الیٰ آخر الحدیث ) ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلّهِ الَذِي وَفّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللّهِ " (سنن ابوداؤد:جلد سوم:

فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان ، (جامع ترمذی ،حدیث نمبر:۱۲۴۹)

ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو ،انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔ پس گویا اہلِ یمن کو حضرتِ معاذؓ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا.

کن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے؟

درج بالا حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر مجتہد کوئی مسئلہ کتاب و سنت میں نہ پائے تو اجتہاد کرسکتا ہے اور لوگوں کے لیے اس کی اتباع و تقلید ضروری ہوگی.

مثال کے طور پر چند جدید مسائل اجتہادیہ؛ جن کا واضح حکم نہ قرآن پاک میں ہے اورنہ حدیث شریف میں:

(۱) نکاح بذریعہ ٹیلیفون (۲) چاند کی شہاد ت بذر یعہ ٹیلیفون (۳) خون کا عطیہ (۴) اعضاء کی پیوندکاری (۵) حالت روزہ میں انجکشن کا مسئلہ(۶) لاؤڈاسپیکر پر اذان کا مسئلہ(۷) ہوائی جہاز میں نماز (۸)کرنسی کی مالی حیثیت (۹) ہوائی اڈوں پر انسانی اسکیننگ (۱۰) ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ وغیرہ

کن کی تقلید کی جائے ؟

ظاہر ہے مسائل اجتہاديہ میں مجتہد کی ہی تقلید کی جائے گی اور مجتہد کا اعلان ہے کہ ’’ قیاس مظہر لامثبت‘‘ (شرح عقائد نسفی)

یعنی ہم کوئی مسئلہ اپنی ذاتی رائے سے نہیں بتاتے بلکہ ہر مسئلہ کتاب و سنت و اجماع سے ہی ظاہر کر کے بیان کرتے ہیں

کون تقلید کرے؟

مسائل اجتہادیہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں:

جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب و سنت پر عمل کرے گااس کے لئے کسی کی تقلید جائز نہیں بوجہ تفہیم کتاب و سنت۔

اور غیر مجتہد اس وجہ سے تقلید کریگا کہ اس میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ کتاب و سنت کے ماہرین سے پوچھ لیتاہےکہ کتاب و سنت کا کیا حکم ہے۔ اس طرح کے عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ واضح رہےکہ مقلد ان مسائل کو ان کی ذاتی رائے سمجھ کرعمل نہیں کرتا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد اللہ تعالیٰ اور مراد رسول صلی الله علیہ وسلم سے آگاہ کیا ہے۔

تقلید شخصی حیات نبوی (صلی الله علیہ وسلم) میں

ایک اور موقع پر رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

حَدّثَنَا مُوسَى بْنُ إسْمَاعِيل ، حَدّثَنَا اَبَانُ ، حَدّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدّثَنِي أَبُو حَسّانَ ، عَنْ الْاسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، انَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، وَرّثَ اخْتًا وَابْنَةً فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَنَبِيّ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ يَوْمَئِذٍ حَيٌ.(تیسیر کلکتہ : صفحہ٣٧٩، کتاب الفرائض، فصل ثانی)

ترجمہ: اسود بن يزيد سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس معاذ (بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہوگیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا۔

فائدہ: اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے اور وہ بھی حیات رسول الله صلے الله علیہ وسلم میں. کیونکہ جب رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے معاذ(رضی اللہ عنہ) کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تھا تو اہل یمن کو اجازت دی تھی کہ تعلیم احکام اور فیصلوں کے لئے ہر مسئلے میں حضرت معاذ (رضی الله عنہ) سے رجوع کریں اور یہی تقلیدشخصی ہے، جیسا ابھی اوپر بیان ہوا.

تقلیدِ شخصی حیات نبوی (صلی الله علیہ وسلم) کے بعد

عَنْ مُحَمّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ ابِيهِ : " انَ امْرَاةً سَالَتْ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ شَيْئًا ، فَامَرَهَا انْ تَرْجِعَ الَيْهِ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللّهِ ، ارَاَيْتَ انْ جِئْتُ فَلَمْ اجِدْكَ ؟ قَالَ ابِي : كَانَهَا تَعْنِي الْمَوْتَ ، قَالَ : فَانْ لَمْ تَجِدِينِي فَاتِي ابَا بَكْرٍ " (صحيح مسلم(كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل ابي بكر الصديق رضي اللہ عنہ )

ترجمہ: حضرت محمد بن جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا تو آپ نے اس عورت کو دوبارہ آنے کے لئے فرمایا، اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں پھر آؤں اور آپ کو (موجود) نہ پاؤں؟ (یعنی آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو) آپ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کے پاس آ جانا (اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کی خلافت بلا فصل اور تقلیدشخصی ثابت اور واضح ہے اس عورت کو آپ صلے الله علیہ وسلم سے مسئلہ ہی تو پوچھنا تھا۔اس حدیث میں سوال کا لفظ واضح لکھا ہے۔

من بعدی" سے ان کی تقلیدشخصی ثابت اور واضح ہے، پس ایک معین شخص کی اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان سے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلیا کرنا اور نہ یہ عادت مستمرہ (جاریہ) تھی کہ دلیل کی تحقیق ہر مسئلے میں کی جاتی ہو اور یہی تقلید شخصی ہے.اورحقیقت تقلید شخصی یہ ہےکہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش آئے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی مرجح کی وجہ سے ایک ہی عالم سے رجوع کیا کرے ۔

ایک دوسری حدیث شریف میں ہے،جس کا امام بخاری اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

ترجمہ: حضرت هذيل بن شرحبيل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا پھر وہی مسئلہ حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا گیا اور حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے فتویٰ کی بھی ان کو خبر دی گئی تو انہوں نے اور طور سے فتویٰ دیا، پھر ان کے فتویٰ کی خبر حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کو دی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک یہ عالم متبحر تم لوگوں میں موجود ہیں تم مجھ سے مت پوچھا کرو.- صحيح البخاري ، كِتَاب الْفَرَائِضِ ، بَاب مِيرَاثِ ابْنَةِ الِابْنِ مَعَ بِنْتٍ، رقم الحديث: (۶۲۶۹)

فائدہ: حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے اس فرمانے سے کہ ان کے ہوتے ہوے مجھ سے مت پوچھو، ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہر مسئلہ میں ان سے پوچھنے کے لئے فرمایا ہے اور یہی تقلید شخصی ہے کہ ہر مسئلہ میں کسی مرجح کی وجہ سے کسی ایک عالم سے رجوع کر کے عمل کرے.

صحابہ کرام رضی الله عنھم اور تقلید

اس بات میں ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں کہ نبی صلے الله علیہ وسلم کے جملہ صحابہ کرام رضی الله عنہ شرف صحبت نبوی کے فیض و برکت سے سب کے سب عادل، ثقه ، متقی ، خداپرست اور پاکباز تھے، مگر فہم قرآن، تدبرحدیث اور تفقہ فی الدین میں سب یکساں نہ تھے، بلکہ اس لحاظ سے ان کے آپس میں مختلف درجات اور متفاوت مراتب تھے.

امام الفقیہ اور احد الاعلام حضرت امام مسروق رح (المتوفی ٢٣-ہجری) سے مروی ہے کہ میں نے اصحاب رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے علم کی خوشبو حاصل کی تو میں نے ان کے علم کی انتہا چھ (٦) پر پائی، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبدالله، حضرت معاذ(بن جبل)، حضرت ابو درداء اور حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہم. میں نے ان کے علم کی خوشبو پائی تو مجھے تو مجھے ان کے علم کی انتہا حضرت علی اور حضرت عبدالله (بن مسعود) رضی الله عنہم پر ملی(طبقات ابن سعد:٢/٢٥تذكرة الحفاظ:١/٢٤ و مقدمه ابن صلاح:٢٦٢ مع شرح العراقي، مستدرك حاكم:٣/٤٦٥، اور اس روایت پر امام حاکم اور امام ذہبی خاموش رہے یعنی جرح نہیں فرمائی)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی فقہ دین پر عمل پیرا تھے اور اپنے دور کے چھے بڑے معتبر اصحاب کی تقلید کرتے تھے. کتب احادیث مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، تہذیب الآثار طبری، شرح معانی الآثار طحاوی، کتاب الآثار امام محمّد، کتاب الآثار امام ابی یوسف میں صحابہ اور تابعین کے ہزارہا فتاویٰ درج ہیں جن کے ساتھ دلائل مذکور نہیں، انہوں نے بلاذکردلیل یہ فتاویٰ صادر فرماتے، اور سب لوگوں نے بلامطالبہ دلیل ان پر عمل کیا، یہ عمل اسلام میں پہلے دن سے آج تک تواتر سے ثابت ہے۔

تقلید پر اجماع صحابہ

اسی لئے امام غزالی (حنبلی) فرماتے ہیں: "تقلید تو اجماع صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل ضروریات دین ثابت ہے" [المستصفى:٢/٣٨٥]

ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع

ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہوچکا ہے، اور امت کے اجماع کی دو صورتیں ہیں:

اول یہ کہ امت کے قابل قدر علماء متفق ہوکر یہ کہیں کہ ہم نے اس مسئلہ پر اجماع کرلیا ہے، جب کہ مسئلہ کا تعلق قول سے ہو، یا اگر مسئلہ کا تعلق کسی فعل سے ہے تو وہ اس فعل پر عمل شروع کردیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ امت کے کچھ بڑے علماء مذکورہ طریقہ پر اجماع کریں اور دوسرے قابل قدر علماء اس پر سکوت کریں اور اس پر ان کی طرف سے کوئی رد نہ ہو اس کو اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔

اجماع کی یہ دونوں صورتیں معتبر ہیں۔ نور الانوار میں ہے:

رکن الإجماع نوعان: عزیمة وھو التکلم منھم بما یوجب الاتفاق أي اتفاق أي الکل علی الحکم بأین یقولوا أجمعنا علی ھذا إن کان ذلک الشيء من باب القول أو شروعھم في الفعل إن کان من بابہ ورخصة ، وھو أن یتکلم أو یفعل البعض دون البعض وسکت الباقون منھم ولا یردون بعد مضي مدة التأمل وھی ثلاثة أیام ومجلس العلم ویسمی ھذا إجماعا سکوتیًا وھو مقبول عندنا : ۲۱۹۔

چنانچہ جب علماء نے دیکھا کہ جو تقلید کا منکر ہوتا ہے وہ شتر بےمہار کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی خواہشات پر عمل کرتا ہے، اس لیے علماء نے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع کیا، اگرچہ ان کا یہ اجماع ایک جگہ متفق ہوکر نہیں ہوا؛ لیکن ان سب کے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے اور عدم تقلید پر نکیر کرنے کی وجہ سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سے بڑے بڑے علماء نے عدم

تقلید پر اپنی آراء کا اظہار کیا اور امت کے سامنے عدم تقلید کے مفاسد کو کھل کر بیان کیا۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں:

(۱) علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔

ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)

(۲) علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:

وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع

یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)

(۳) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین

یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (فتح المبین ۱۶۶)

(۴) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة

یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)

(۵) مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․

یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (تفسیر مظہری:۲/۶۴)

(۶) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)

)شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں:

أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (نور الہدایہ: ۱/۱۰)

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا (القرآن۔ ۱۷:۶)

جس بات کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی مت کر ،کیونکہ کان آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کی پوجھ گچھ کی جانے والی ہے۔

اصل تو یہی ہے کہ ہر ایمان والا خود نصوص قرآنیہ اور احادیث جو کہ قرآن کی شرح ہیں سمجھنے کی کوشش کرے ،اور اس سے استنباط کرے ،مگر چونکہ آیت مذکورہ میں خطاب عام ہے کسی شخصے خاص یا جماعت سےخطاب نہیں ہے ،اس لئے جس نے بھی اس خطاب کو سنا اس پر لازم ہوگیا کہ وہ اس پر ایمان لائے ،اب چونکہ اس خطاب کو سمجھنے کی ہر ایک میں صلاحیت نہیں ہوتی ہے، اسلئے تقلید عاجزی اور مجبوری کی وجہ سے نا گزیر ہوجاتی ہے ،جب یہ معلوم ہوگیا کہ تقلید نام مجبوری کا ہے ، تو یہ بھی معلوم رہے کہ مقلد کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی ایک مجتہد کی تقلید کرے ،ایسا نہیں کہ جہاں سے بھی اپنا مطلب نکلے اسی کی بات مان لی ،یہ جائزہے اس وجہ سے کہ ایسا کرنا اجماع کے خلاف ہے ،ہوائے نفسانی ہے، اور نفس کی پیروی کرنا حرام ہے ،اس وجہ سے کہ اسنے احکام الٰہی کی پیروی نہ کرکے اپنی خواہشات کی پیروی کی ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

’فلا تتبعو الھویٰ

پس اپنے خواہشات کی پیوری مت کر

خلاصہ کلام مقلد کی دو قسم ہیں (۱)عامی (۲) متبع

عامی وہ جو دلیل شرعی کی معرفت کے بغیر مجتہد کے قول بوجہ اعتماد کلی کے عمل کرے ،

متبع وہ جس کو بعض شرعی دلائل کی معرفت ہوتی ہے ،اور اسی معرفت کی بنیاد پر مجتہد کی تقلید کرتا ہے، لیکن اس کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ وہ خود اجتہاد کرے ۔بھر دونوں قسم کے عاملین بوجہ اتباع فرمان الٰہی مستحق اجر ہونگے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دعا کا طالب:
عابد الرحمٰن بجنوری

انڈیا

Friday, 14 December 2012

فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے وساوس واکاذیب



الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين وخاتم النبیین والمرسلین سيدنا محمد وعلى آله وصحبہ اجمعین 



فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے وساوس واکاذیب 



فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء میں بہت ساری صفات قبیحہ پائ جاتی هیں ، بدگمانی ، بدزبانی ، خودرائ ، کذب وفریب ، جہالت وحماقت ، اس فرقہ کے اهم اوصاف هیں ، اور انهی صفات قبیحہ کے ذریعہ هی عوام الناس کوگمراه کرتے هیں ، لہذا ایک دیندار ذی عقل مسلمان کے لیئےضروری هے کہ دین کے معاملہ میں فرقہ اهل حدیث کے نام نہاد جاهل شیوخ کی طرف هرگز رجوع واعتماد نہ کرے ، اور یقین کیجیے کہ میں یہ بات کسی ذاتی تعصب وعناد کی بنیاد پرنہیں کہ رها ، بلکہ انتهائ بصیرت وحقیقی مشاهده کی بات کر رها هوں ، 
ان کا جہل وکذب اهل علم پر تو بالکل عیاں هے ، لیکن عام آدمی ان کی ملمع سازی اور وساوس و اکاذیب کی جال میں پهنس جاتا هے ،
ذیل میں فرقہ اهل حدیث کے مشہور وساوس و اکاذیب کا تذکره کروں گا ، تاکہ ایک عام آدمی ان کے وساوس ودجل وفریب سے واقف هوجائے ،

وسـوســه 1 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی اتباع بہتر هے یا محمد رسول الله کی ؟؟ 
جواب = یہ وسوسہ ایک عام آدمی کو بڑا خوشنما معلوم هوتا هے ، لیکن دراصل یہ وسوسہ بالکل باطل وفاسد هے ، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تقابل کرنا هی غلط هے ، بلکہ نبی کا مقابلہ امتی سے کرنا یہ توهین وتنقیص هے ، 
بلکہ اصل سوال یہ هے کہ کیا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ اسلام ) کی راهنمائ میں بہترهے یا اپنے نفس کی خواهشات اور آج کل کے نام نہاد جاهل شیوخ کی اتباع میں بہترهے ؟؟
لہذا هم کہتے هیں کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ مجتهدین ) کی اتباع وراهنمائ میں کرنا ضروری هے ، اور اسی پرتمام اهل سنت عوام وخواص سلف وخلف کا اجماع واتفاق هے ، لیکن بدقسمتی سے هندوستان میں انگریزی دور میں ایک جدید فرقہ پیدا کیا گیا جس نے بڑے زور وشور سے یہ نعره لگانا شروع کیا کہ دین میں ان ائمہ مجتهدین خصوصا امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله کی اتباع وراهنمائ ناجائز وشرک هے ، لہذا ایک عام آدمی کو ان ائمہ اسلام کی اتباع وراهنمائ سے نکال کر ان جہلاء نے اپنی اور نفس وشیطان کی اتباع میں لگادیا ، اور هر کس وناکس کو دین میں آزاد کردیا اور نفسانی وشیطانی خواهشات پرعمل میں لگا دیا ، اور وه حقیقی اهل علم جن کے بارے قرآن نے کہا ( فاسئلوا اهل الذکران کنتم لا تعلمون ) عوام الناس کو ان کی اتباع سے نکال کر ان جاهل لوگوں کی اتباع میں لگا دیا جن کے بارے حضور صلی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا 
( فأفتوا بغیرعلم فضلوا وأضلوا ) 
اور ان جہلاء کی تقلید واتباع کا صراط مستقیم رکهہ دیا ، اور عام لوگوں کو قرآن وسنت کے نام پراپنی طرف بلاتے هیں ، لیکن درحقیقت عام لوگوں کوچند جہلاء کی اندهی تقلید واتباع میں ڈال دیا جاتا هے ،
فإلى الله المشتكى وهوالمستعان ٠ 



وسـوســه 2 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ؟؟
جواب = یہ وسوسہ بہت پرانا هے جس کو فرقہ اهل حدیث کے جہلاء نقل درنقل چلے آرهے هیں ، اس وسوسہ کا اجمالی جواب تو ( لعنة الله علی الکاذبین ) هے ، اور یہ انهوں نے ( تاریخ ابن خلدون ) کتاب سے لیا هے ، ایک طرف تو اس فرقہ کا دعوی هے کہ همارے اصول صرف قرآن وسنت هیں ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے اس درجہ بغض هے کہ ان کے خلاف جو بات جہاں سے بهی ملے وه سر آنکهوں پر اس کے لیئے کسی دلیل وثبوت وتحقیق کی کوئ ضرورت نہیں اگرچہ کسى مجہول آدمی کا جهوٹا قول کیوں نہ هو ، 
یہی حال هے ابن خلدون کے نقل کرده اس قول کا هے ، 



تاریخ ابن خلدون میں هے (( فابوحنیفه رضی الله عنه یُقال بلغت روایته الی سبعة عشر حدیثا اونحوها )) 

فرقہ اهل حدیث کے جاهل شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے اس کا ترجمہ کرتے هیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، حالانکہ اس عبارت کا یہ ترجمہ بالکل غلط هے ، بلکہ صحیح ترجمہ یہ هے کہ ابوحنیفہ رضی الله عنه کے متعلق کہا جاتا هے کہ ان کی روایت ( یعنی مَرویات ) ستره ( 17 ) تک پہنچتی هیں ، 

اس قول میں یہ بات نہیں هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، تو ابن خلدون کے ذکرکرده اس قول مجہول کا مطلب یہ هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے جواحادیث روایت کیں هیں ان کی تعداد ستره ( 17 ) هے ، یہ مطلب نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کُل ستره ( 17 ) احادیث پڑهی هیں ، اور اهل علم جانتے هیں کہ روایت حدیث میں کمی اور قلت کوئ عیب ونقص نہیں هے ، حتی کہ خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی روایات دیگر صحابہ کی نسبت بہت کم هیں ، 

2 = تاریخ ابن خلدون ج ۱ ص ۳۷۱ ) پر جو کچهہ ابن خلدون رحمہ الله نے لکها هے ، وه اگربغور پڑهہ لیا جائے تواس وسوسے اوراعتراض کا حال بالکل واضح هوجاتا هے ۰ 
3 = ابن خلدون رحمہ الله نے یہ قول ( یُقال ) بصیغہ تَمریض ذکرکیا هے ، اور علماء کرام خوب جانتے هیں کہ اهل علم جب کوئ بات ( قیل ، یُقالُ ) سے ذکرکرتے هیں تو وه اس کے ضعف اورعدم ثبوت کی طرف اشاره هوتا هے ،
اور پهر یہ ابن خلدون رحمہ الله کا اپنا قول نہیں هے ، بلکہ مجهول صیغہ سے ذکرکیا هے ، جس کا معنی هے کہ ( کہا جاتا هے ) اب یہ کہنے والا کون هے کہاں هے کس کوکہا هے ؟؟
کوئ پتہ نہیں ، پهر ابن خلدون رحمہ الله نے کہا ( اونَحوِها ) یعنی ان کوخود بهی نہیں معلوم کہ ستره هیں یا زیاده ۰ 
4 = ابن خلدون رحمہ الله مورخ اسلام هیں لیکن ان کو ائمہ کی روایات کا پورا علم نہیں هے ، مثلا وه کہتے هیں کہ امام مالک رحمہ الله کی مَرویّات (موطا ) میں تین سو هیں ، حالانکہ شاه ولی الله رحمہ الله فرماتے هیں کہ (موطا مالک) میں ستره سو بیس ( 1720 ) احادیث موجود هیں ۰ 
5 = اور اس وسوسہ کی تردید کے لیئے امام اعظم رحمہ الله کی پندره مسانید کو هی دیکهہ لینا کافی هے ، جن میں سے چار تو آپ کے شاگردوں نے بلاواسطہ آپ سے احادیث سن کرجمع کی هیں ، باقی بالواسطہ آپ سے روایت کی هیں ،
اس کے علاوه امام محمد امام ابویوسف رحمهما الله کی کتب اور مُصنف عبدالرزاق اور مُصنف ابن ابی شیبہ هزاروں روایات بسند مُتصل امام اعظم رحمہ الله سے روایت کی گئ هیں ، اور امام محمد رحمہ الله نے ( کتاب الآثار ) میں تقریبا نوسو ( 900 ) احادیث جمع کی هیں ، جس کا انتخاب چالیس هزار احادیث سے کیا ۰
6 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ائمہ حدیث نے حُفاظ حدیث میں شمارکیا هے ،
عالم اسلام کے مستند عالم مشہور ناقد حدیث اور علم الرجال کے مستند ومُعتمد عالم علامہ ذهبی رحمہ الله نے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ذکراپنی کتاب ( تذکره الحُفَّاظ ) میں کیا هے ، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاهر هے کہ اس میں حُفاظ حدیث کا تذکره کیا گیا هے ، اور محدثین کے یہاں ( حافظ ) اس کو کہاجاتا هے جس کو کم ازکم ایک لاکهہ احادیث متن وسند کے ساتهہ یاد هوں اور زیاده کی کوئ حد نہیں هے ، امام ذهبی رحمہ الله تو امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو حُفاظ حدیث میں شمار کریں ، اور انگریزی دور کا نومولود فرقہ اهل حدیث کہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره احادیث یاد تهیں ، 
( تذکره الحُفَّاظ ) سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ترجمہ درج ذیل هے ، 
تذكرة الحفاظ/الطبقة الخامسة
أبو حنيفة
الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي: مولده سنة ثمانين رأى أنس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفة، رواه ابن سعد عن سيف بن جابر أنه سمع أبا حنيفة يقوله. وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الأعرج وعدي بن ثابت وسلمة بن كهيل وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وأبي إسحاق وخلق كثير. تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضي أبو يوسف ومحمد بن الحسن وأسد بن عمرو والحسن بن زياد اللؤلؤي ونوح الجامع وأبو مطيع البلخي وعدة. وكان قد تفقه بحماد بن أبي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وأبو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم وأبو عبد الرحمن المقري وبشر كثير. وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب.
قال ضرار بن صرد: سئل يزيد بن هارون أيما أفقه: الثوري أم أبو حنيفة؟ فقال: أبو حنيفة أفقه وسفيان أحفظ للحديث. وقال ابن المبارك: أبو حنيفة أفقه الناس. وقال الشاقعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفة. وقال يزيد: ما رأيت أحدًا أورع ولا أعقل من أبي حنيفة. وروى أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا. قال أبو داود : إن أبا حنيفة كان إماما.
وروى بشر بن الوليد عن أبي يوسف قال: كنت أمشي مع أبي حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا ينام الليل، فقال: والله لا يتحدث الناس عني بما لم أفعل، فكان يحيي الليل صلاة ودعاء وتضرعا. قلت: مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء. كان موته في رجب سنة خمسين ومائة .
أنبأنا ابن قدامة أخبرنا بن طبرزد أنا أبو غالب بن البناء أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى أنا أبو عبد الرحمن المقرئ عن أبي حنيفة عن عطاء عن جابر أنه رآه يصلي في قميص خفيف ليس عليه إزار ولا رداء قال: ولا أظنه صلى فيه إلا ليرينا أنه لا بأس بالصلاة في الثوب الواحد 





وسوسه 3 = امام ابوحنيفه رحمه الله ضعيف راوى تهے محدثین نے ان پرجرح کی هے ؟؟ 

جواب = دنیائے اسلام کی مستند ائمہ رجال کی صرف دس کتابوں کا نام کروں گا ، جو اس وسوسه کو باطل کرنے کے لیئے کافی هیں ،
1 = امام ذهبی رحمه الله حدیث و رجال کے مسنتد امام هیں ، اپنی کتاب ( تذکرة الحُفاظ ) میں امام اعظم رحمه الله کے صرف حالات ومناقب وفضائل لکهے هیں ، جرح ایک بهی نہیں لکهی ، اور موضوع کتاب کے مطابق مختصر مناقب وفضائل لکهنے کے بعد امام ذهبی رحمه الله نے کہا کہ میں نے امام اعظم رحمه الله کے مناقب میں ایک جدا و مستقل کتاب بهی لکهی هے ۰ 
2 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) میں جرح نقل نہیں کی ، بلکہ حالات ومناقب لکهنے کے بعد اپنے کلام کو اس دعا پرختم کیا ( مناقب أبي حنيفة كثيرة جدا فرضي الله عنه وأسكنه الفردوس آمين 
امام ابوحنيفه رحمه الله کے مناقب کثیر هیں ، ان کے بدلے الله تعالی ان سے راضی هو اور فردوس میں ان کو مقام بخشے ، آمین ، ۰
3 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تقريب التهذيب ) میں بهی کوئ جرح نقل نہیں کی ۰ 
4 = رجال ایک بڑے امام حافظ صفی الدین خَزرجی رحمه الله نے ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) میں صرف مناقب وفضائل لکهے هیں ، کوئ جرح ذکرنہیں کی ، اور امام اعظم رحمه الله کو امام العراق وفقیه الامة کے لقب سے یاد کیا ، واضح هو کہ کتاب ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) کے مطالب چارمستند کتابوں کے مطالب هیں ، خود خلاصة ، اور 
5 = تذهيب ، امام ذهبی رحمه الله ۰
6 = ألكمال في أسماء الرجال ، امام عبدالغني المَقدسي رحمه الله ۰ 
7 = تهذيب الكمال ، امام ابوالحجاج المِزِّي رحمه الله ۰
کتاب ( ألكمال ) کے بارے میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) کے خطبہ میں لکهتے هیں کہ 
كتاب الكمال في أسماء الرجال من أجل المصنفات في معرفة حملة الآثار وضعا وأعظم المؤلفات في بصائر ذوي الألباب وقعا ) اور خطبہ کے آخرمیں کتاب ( ألكمال ) کے مؤلف بارے میں لکها، هو والله لعديم النظير المطلع النحرير ۰ 
8 = کتاب تهذيب الأسماء واللغات ، میں امام نووي رحمه الله سات صفحات امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ، 
9 = کتاب مرآة الجنان ، میں امام یافعی شافعی رحمه الله امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں کوئ جرح نقل نہیں کی ، حالانکہ امام یافعی نے ( تاریخ بغداد ) کے کئ حوالے دیئے هیں ، جس سے صاف واضح هے کہ خطیب بغدادی کی منقولہ جرح امام یافعی کی نظرمیں ثابت نہیں ۰ 
10 = فقيه إبن العماد ألحنبلي رحمه الله اپنی کتاب شذرات الذهب میں صرف حالات ومناقب هی لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ۰ 
اسی طرح اصول حدیث کی مستند کتب میں علماء امت نے یہ واضح تصریح کی هے ، کہ جن ائمہ کی عدالت وثقاهت وجلالت قدر اهل علم اور اهل نقل کے نزدیک ثابت هے ، ان کے مقابلے میں کوئ جرح مقبول و مسموع نہیں هے ،
وسوسه 4 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله مُحدث نہیں تهے ، ان کو علم حدیث میں کوئ تبحر حاصل نہیں تها ؟؟ 
جواب = یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جہلاء آج تک نقل کرتے چلے آرهے هیں ، اهل علم کے نزدیک تو یہ وسوسہ تارعنکبوت سے زیاده کمزور هے ، اور دن دیہاڑے چڑتے سورج کا انکار هے ، اور روشن سورج اپنے وجود میں دلیل کا محتاج نہیں هے ، اور چمگادڑ کو اگرسورج نظرنہیں آتا تواس میں سورج کا کیا قصور هے ؟ بطور مثال امام اعظم رحمہ الله کی حلقہ درس میں برسہا برس شامل هونے والے چند جلیل القدر عظیم المرتبت محدثین وائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش کرتا هوں ، جن میں هرایک اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم وحکمت کا سمندر هے ، 
1 = امام یحی ابن سعید القطان ، علم الجرح والتعدیل کے بانی اور امام هیں 
2 = امام عبدالرزاق بن همام ، جن کی کتاب ( مُصَنَّف ) مشہورومعروف هے ، جن کی جامع کبیر سے امام بخاری نے فیض اٹهایا هے 
3 = امام یزید ابن هارون ، امام احمد بن حنبل کے استاذ هیں 
4 = امام وکیع ابن جَرَّاح ، جن کے بارے امام احمد فرمایا کرتے کہ حفظ واسناد و روایت میں ان کا کوئ هم سر نہیں هے 
5 = امام عبدالله بن مبارک ، جو علم حدیث میں بالاتفاق امیرالمومنین هیں 
6 = امام یحی بن زکریا بن ابی زائده ، امام بخاری کے استاذ علی بن المَدینی ان کو علم کی انتہاء کہا کرتے تهے 
7 = قاضی امام ابویوسف ، جن کے بارے امام احمد نے فرمایا کہ میں جب علم حدیث کی تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے قاضی امام ابویوسف کی مجلس میں بیٹها ،
8 = امام محمد بن حسن الشیبانی جن کے بارے امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے ایک اونٹ کے بوجهہ کے برابرعلم حاصل کیا هے ، 
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ( تهذيب التهذيب ج 1 ص 449 ) میں امام اعظم کے تلامذه کا ذکرکرتے هوئے درج ذیل مشاهیر ائمہ حدیث کا ذکرکیا 
تهذيب التهذيب​ ، حرف النون
وعنه ابنه حماد وإبراهيم بن طهمان وحمزة بن حبيب الزيات وزفر بن الهذيل وأبو يوسف القاضي وأبو يحيى الحماني وعيسى بن يونس ووكيع ويزيد بن زريع وأسد بن عمرو البجلي وحكام بن يعلى بن سلم الرازي وخارجة بن مصعب وعبد المجيد بن أبي رواد وعلي بن مسهر ومحمد بن بشر العبدي وعبد الرزاق ومحمد بن الحسن الشيباني ومصعب بن المقدام ويحيى بن يمان وأبو عصمة نوح بن أبي مريم وأبو عبد الرحمن المقري وأبو عاصم وآخرون ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ( وآخرون ) کہ کراشاره کردیا کہ امام اعظم کے شاگردوں میں صرف یہ کبارائمہ هی شامل نہیں بلکہ ان کے علاوه اور بهی هیں ،
اوران میں اکثرامام بخاری کے استاذ یا استاذ الاساتذه هیں ،
یہ ایک مختصرسی شہادت میں نے حدیث ورجال کے مستند امام حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی کی زبانی آپ کے سامنے پیش کی هے ، تو پهربهی کوئ جاهل امام اعظم کے بارے یہ کہے کہ ان کو حدیث کا علم حاصل نہیں تها ، کیا یہ جلیل القدرمحدثین اورائمہ امام اعظم کی درس میں محض گپ شپ اورهوا خوری کے لیئے جایا کرتے تهے ؟؟ 
کیا ایک عقل مند آدمی ان ائمہ حدیث اور سلف صالحین کی تصریحات کوصحیح اور حق تسلیم کرے گا یا انگریزی دور میں پیدا شده جدید فرقہ اهل حدیث کے وساوس واباطیل کو ؟؟

وسوسه 5 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تهے ؟؟ 

جواب = یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جهلاء نےامام اعظم کے ساتهہ بغض وعناد کی بناء پر مشہورکیا ، جبکہ اهل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وکاذب هے ، 
یاد رکهیں کہ جمہور محدثین کے نزدیک محض کسی صحابی کی ملاقات اور رویت سے آدمی تابعی بن جاتا هے ، اس میں صحابی کی صحبت میں ایک مدت تک بیٹهنا شرط نہیں هے ، 
حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (شرح النخبه ) میں فرمایا ( هذا هوالمختار ) یہی بات صحیح ومختارهے ۰ 
امام اعظم رحمہ الله کو بعض صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل هوا هے ، 
اور امام اعظم رحمہ الله کا حضرت انس رضی الله عنہ سے ملاقات کو اور آپ کی تابعی هونے کو محدثین اور اهل علم کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا هے
1 = ابن سعد نے اپنی کتاب ( الطبقات ) میں، 2 = حافظ ذهبی نے اپنی کتاب (تذکره الحُفاظ ) میں ، 3 = حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ( تهذیب التهذیب ) میں اور اسی طرح ایک فتوی میں بهی جس کو امام سیوطی نے ( تبییض الصحیفه ) میں نقل کیا هے ، 4 = حافظ عراقی ، 5 امام دارقطنی ، 6 = امام ابومعشرعبدالکریم بن عبدالصمد الطبری المقری الشافعی ، 7 = امام سیوطی ، 8 = حافظ ابوالحجاج المِزِّی ، 9 = حافظ ابن الجوزی ، 10 = حافظ ابن عبدالبر ،
11 = حافظ السمعانی ، 12 = امام نووی ، 13 = حافظ عبدالغنی المقدسی ، 
14 = امام جزری ، 15 = امام تُوربِشتی ، 16 = امام سراج الدین عمربن رسلان البُلقینی ، اپنے زمانہ کے شیخ الاسلام هیں اور حافظ ابن حجر کے شیخ هیں ،
17 = امام یافعی شافعی ، 18 = علامہ ابن حجرمکی شافعی ، 19 = علامہ احمد قسطلانی ، 20 = علامہ بدرالدین العینی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی اجمعین 
بطورمثال اهل سنت والجماعت کے چند مستند ومعتمد ائمہ کے نام میں نے ذکرکیئے هیں ، ان سب جلیل القدر ائمہ کرام نے امام اعظم رحمہ الله کو تابعی قراردیا هے ، اب ان حضرات ائمہ کی بات حق وسچ هے یا انگریزی فرقہ اهل حدیث میں شامل جهلاء کا وسوسہ اور جهوٹ ؟ 

تحریر: ایم حافظ خان

Tuesday, 4 December 2012


تحفۃ الغیر مقلدین۔!!!



molana ameen safdar okarvi.sereis:4.part:1 by khudam-e-ehlesunnat

Monday, 19 November 2012

غیر مقلدین کے غیر مقلد سوالات اور انکے جوابات




سوال نمبر1: تقلید شخصی اصطلاحی کی تعریف کیا ہے۔ اور یہ فرض ہے، واجب ہے، مستحب ہے یا مباح ہے؟

الجواب: تقلید کی تعریف: کسی کا قول اس لئے ماننا کہ آپ کو یقین ہو کہ وہ شخص کتاب و سنت کے موافق بتلائے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ یہ تقلید کا شرعی معنی ہے، اب تقلید کے مطابق کسی راوی کی روایت کو قبول کر لینا تقلید فی الروایت، اور کسی مجتھد کی درایت کو قبول کرنا تقلید فی الدرایت ہے۔ 

کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو صحیح یا ضعیف کہنا بھی تقلید ہے، اور ثقہ یا مجہول کہنا بھی تقلید۔ 

اسی طرح کسی امتی کے بنائے گئے اصول حدیث و اصول تفسیر و اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید کہلاتا ہے۔ 

اب بات یہ کہ کیا تقلید واجب ہے؟ تقلید واجب ہے جب خود عقل نہ ہو، حدیث اور قران کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، ساتھ ہی اتنی بصیرت نہ ہو کہ کسی غیر منصوص مسئلہ کے مطلب کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔ یہ کام فقہا کا ہے کہ انہوں نے احادیث طیبہ سے وہ مسائل نکالے جو ہماری سوچ میں کبھی نہیں سما سکتے تھے۔ اس لئے ہر انسان جو غیر مجتہد ہو اس پر تقلید واجب ہے، اس کی عام مثال دی جاتی ہے کہ جو خود ڈاکٹر نہ ہو وہ کسی اچھے اور جانے مانے ڈاکٹر سے ہی دوا لے گا، کسی لا علم سے ہرگز نہیں اور اسی طرح نہ ہی اس ڈاکٹر کے دئے گئے نسخے کو جا کر علمِ طب کی کتب میں تصدیق کرے گا اور پھر کھائے گا۔ بلکہ وہ اسی بھروسے پر اس دوا کو استعمال کرے گا کہ اس ڈاکٹر (جو سب مریضوں اور تجربہ کاروں کے مطابق اچھا اور مستند مانا ہوا ہے) نے اسے صحیح دوا تجویز کی ہے۔ اور انشا اللہ شفایاب بھی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تقلید اس ڈاکٹر کی واجب ہے۔ ہم بھی بیمار ہیں، اور جانتے ہیں کہ جب تک کوئی بڑا طبیب علاج کے لئے میسر نہ آئے ہمارے مرض کا درماں ممکن نہیں، اس لئے فقیہہ امام کی تقلید ضروری ہے ورنہ کیا ہوتا ہے؟ 

ورنہ یہ ہوتا ہے کہ میں محدث ہی کیوں نہ ہوجاؤں مگر فقہ سے نا واقف ہوں تو حدیث کا سمجھنے سے قاصر رہ سکتا ہوں جیسے ایک غیر فقیہہ محدث چالیس سال تک یہ نظریہ اپنائے رکھا کہ نماز جمعہ سے پہلے سر منڈوانا درست نہیں اور حدیث کیا تھی؟ ”نَھٰی عَنِ الحَلَقِ قَبلَ الصَّلٰوۃِ یَومُ الجُمُعَہ“ 

یہی حال ہوتا ہے جب تقلید نہیں ہوتی، اپنی عقل چلتی ہے، پیروی چھوٹ جاتی ہے، گمراہی آجاتی ہے۔ 

مقلد اپنے آپ کو مقلد کہتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ قران اور حدیث کے خلاف ہے، بلکہ وہ ایسے شخص کا مقلد ہے جو قران اور حدیث کو اس مقلد اور ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں سے زیادہ سمجھتا ہے اور جو وہ سمجھاتا ہے مقلد اسکی بات کو مان لیتا ہے۔ لیکن یہ کہاں ہے کہ مقلد حدیث کو نہیں بلکہ امام کو مانتا ہے؟ یہ ایسی ہی بات ہے کہ میں سائنس کہ ٹیچر کی بات سنوں تو مجھ پر طعن ہو کہ تم سائنس کی ٹیکسٹ بک کو چھوڑ کر ٹیچر کی بات مانتے ہو۔ اور یہ غلط ہے، مگر میں کیا کروں کہ مجھے اس ٹیکسٹ بک کی سمجھ نہیں آتی مگر ٹیچر اسی ٹیکسٹ بک میں سے وہ کچھ سمجھا دیتا ہے جو میرے وہم و گمان تک میں نہ تھا۔۔۔۔ تو ٹیچر کی تقلید واجب ہے مجھ پر۔ 

غیر مقلدین کے شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ فرماتے ہیں: 

”تقلید کا اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ ماننا اور عمل کرنا اس شخص کے قول پر بلا دلیل جس کا قول حجت شرعی نہ ہو، تو اس اصطلاح کی بنیاد پر عامی کا مجتھدوں کی طرف رجوع کرنا کوئی تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ تقلید کے معنی عرف میں یہ ہیں کہ وقت لا علمی میں میں کسی اہل علم کا قول اور اس پر عمل کرنا اور اسی عرفی معنی میں مجتہدوں کی ”اتباع“ کو تقلید کہا جاتا ہے“ 

گویا اتباع ہی تقلید ہے اور تقلید کا معنی ہی اتباع کرنا ہے۔ (معیار الحق) 

آگے عقیدۃ الفرید کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: 

اور فاضل حبیب اللہ قندھاری ؒ فرماتے ہیں: 

تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جس کا قول حجت شرعیہ نہ ہو سو رجوع کرنا آنحضرت ﷺ کی اور اجماع کی طرف تقلید نہیں کہلائے گا۔ اور اسی طرح کسی انجان کا مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا یا کسی قاضی کا ثقہ آدمی کے قول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں کہلائے گا کیونکہ یہ تو بحکم شرع واجب ہے۔ اب اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب یہ چیز واجب ہے تو اتباع کو اگر تقلید کا نام دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں (بحوالہ ایضاً امام الحرمین) 

اس مفصل عبارت سے ثابت ہوا: 

۱۔ لا علمی کے وقت مجتہد کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ 

۲۔ مجتہدین کی اتباع کو تقلید بھی کہا جاتا ہے یعنی بالمآل تقلید اور اتباع میں کوئی فرق نہیں 

۳۔ لا علم اور انجان کا کسی مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ بحکم شرع واجب ہے 

۴۔ جس طرح مجتہدین کے اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے اسی طرح رسولﷺ کی اتباع کو بھی تقلید کہنا جائز ہے۔ 



امید ہے کہ سمجھ آیا ہو کچھ 



سوال نمبر2: اجماع کی تعریف کیا ہے۔ اور اجماع کن لوگوں کا معتبر ہے؟ تقلید شخصی اصطلاحی پر کیا اجماع ہوا ہے۔ اگر ہوا ہے تو کب، کہاں اور کن کا؟
الجواب: اجماع کی تعریف مختصر یہ کہ جس چیز پر امت کا اکثر یہ بہت زیادہ حصہ جمع ہوجاوے، اس سے سیدھی سی بات یہ مراد ہے کے امت مسلمہ ایک وقت میں غلط بات یا کسی غلط مسئلے پر جمع نہیں ہوسکتی۔ مثلاً ایک ہی وقت میں پوری امت بیس تراویح پر جمع ہوئی اور صدیوں جمع ہی رہی بلکہ آج تک جمع ہے یہ اجماع ہے۔ اس میں معتبر ہونا کسی ایک زمانے یا کسی ایک طرح کے لوگوں کو شرط نہیں بنایا جاسکتا معتبر ہونے کے لئے۔ مثلاً پہلے بھی سب بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے، آج بھی امت کا اجماع اسی پر ہے۔ (کوئی ایک جماعت اپنی ڈیڑھ اینٹ کی چن کر بیٹھ جائے تو وہ اجماع امت میں نہیں آتی اور انشا اللہ کبھی آئے گی بھی نہیں۔) مولانا فضل محمد صاحب دامت برکاتہم بنوری ٹاؤن کے۔ میرے ساتھ عشائیہ تناول فرما رہے تھے۔ کہنے لگے کہ مزمل بیٹا ”کتیا ایک ساتھ آٹھ بچے دیتی ہے۔ اور بکری دو ہی بچے دیتی ہے۔ لیکن ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ حرام کبھی پنپ نہیں سکتا اور کتیا کے بچے کوئی کھاتا بھی نہیں پھر بھی بکری کے بچوں کی تعداد آپ خود سمجھ سکتے ہیں“ ۔ اسی طرح ایک وقت میں اجماع امت کسی غلط بات پر ممکن نہیں اور اجماع امت حق والوں کے لئے ایک مضبوط سے مضبوط دلیل بھی ہے۔ 

تقلید شخصی پر آئیں تو پتا لگتا ہے کہ ہر دور میں تقلید ہوئی، صحابہ میں بھی تقلید شخصی کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے قرۃ العین میں لکھا ہے۔ پھر یہ بھی کہ سب صحابہ میں کوئی ایک بھی غیر مقلد نہیں تھا۔ یا تو مجتھد تھے یا مقلد۔ صحابہ کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ رہی مگر فقیہ صحابہؓ جن کی تقلید الگ الگ جگہوں پر ہوتی وہ مفتی صحابہؓ کل 149 تھے اور ان میں مکثرین کی تعداد سات ہے جنہوں نے بہت زیادہ تعداد میں فتوے دئے، بیس متوسطین تھے جنہوں نے کئی ایک فتوے دئے، اور ایک سو بائیس مقلین یعنی ایسے ہیں جنہوں نے بہت کم تعداد میں فتوے دئے۔ ان مفتی صحابہ کرام ؓ کے ہزاروں فتوے مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہین جن میں ان مفتیان کرام نے صرف مسئلہ بتایا ہے دلیل میں کسی حدیث یا آیت کو نہ تو طلب کیا گیا اور نہ ہی پیش کیا گیا اور انہی فتاوی پر مقلد صحابہؓ عمل کیا۔ اسی کو تقلید کہا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ الانصاف میں فرماتے ہیں ”صحابہؓ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہر علاقے میں ایک صحابی کی تقلید شخصی کی جاتی۔ “ 

جیسے مکہ میں ابن عباسؓ، مدینہ میں زید بن ثابت ؓ کوفہ میں عبد اللہ بن مسعودؓ یمن میں معاذ ؓ بصرہ میں انس ؓ ۔ پھر شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ تابعین کے دور میں ہر تابعی کا ایک مذہب قرار پایا اور ہر شہر میں ایک امام ہو گیا، لوگ اسکی تقلید کیا کرتے۔ الغرض یہ کہ تقلید صحابہؓ اور تابعینؒ کے دور سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ اب مسئلہ یہ کہ ان صحابہ و تابعین فقہا کی مرتب کردہ کتابیں ہم میں موجود نہیں لیکن پھر ائمہ اربعہ نے انکے مذہب کو جمع کرکے مرتب کردیا اور انہی ائمہ اربعہ کے واسطے سے ان سب فقہا کی تقلید آج تک ہوتی آرہی ہے یہی اجماع امت ہے جو دور صحابہ سے لیکر آج تک چلتا چلا آرہا ہے۔ 




سوال نمبر3: اجتہاد کی تعریف کیا ہے۔ اجتہاد کے لیے کن علوم کی ضرورت ہے اور کیوں۔ کیا اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔ اگر نہیں تو پہلے کیوں کھلا تھا اور کس نے کھولا تھا۔ اب کیوں بند ہو گیا ہے۔ اور کس نے بند کیا ہے؟
الجواب: اجتہاد کو اختصار کے ساتھ یوں کہوں کہ جو مسئلہ کتاب اللہ اور سنت سے واضح طور پر ثابت نہ ہو یعنی غیر منصوص ہو تو ایسے مسائل کو اجتہاد سے حل کیا جاتا ہے۔ سوچیں اگر انسان، حیوان، جنات، پیشاب، پاخانہ، پھر ان سے متعلق شاخیں، پھر ان شاخوں کی شاخیں، پھر شاخوں کی شاخوں کی شاخیں سب کچھ اگر قران کریم اور احادیث میں صراحتاً ثابت ہوتا تو احادیث کی تعداد اربوں یا کھربوں میں ہوتی۔ 

کتاب و سنت ضابطہ حیات ہیں اس پر امت کا اجماع ہے اور ہر کوئی مانتا ہے۔ اب ضابطہ کیا ہوتا ہے؟ ضابطہ ایک حد ہوتی ہے جس سے باہر نکلنا ضابطہ کے خلاف ہے۔ 

اس صورت میں اگر ایک مجتہد یا ایک فقیہہ قیاس کر کے کے کوئی مسئلہ نکالے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قران و سنت (یعنی ضابطہ حیات) سے ہٹ گیا اور قیاس کرکے مسئلہ ایجاد کرلیا۔ 

مجتہد ہونے کی شرائط علی بن محمد البزدوی الحنفی ؒ فرماتے ہیں مختصر بیان کر دیتا ہوں: 

”اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ مجتہد کتاب اللہ کی معانی اور حدیث کی اسانید اور متون اور ان کی معانی کے طریقوں کے علم پر حاوی ہو اور یہ کہ قیاس اور اس کے طرق کو بھی جانتا ہو“ 

یعنی مجتہد کے لئے یہ بنیادی شرط ہے کہ کتاب اللہ کی معانی پر عبور رکھتا ہو اور حدیث کی اسانید اور اسکے متون پر بھی اس کا علم حاوی ہو اور اخذ معانی مثلاً عبارۃ النص، اشارۃ النص، دلالۃ النص، اور اقتضاء النص وغیرہ کے وجوہ کو بھی بخوبی جانتا ہو۔ ظاہر امر ہے کہ جس نے نہ تو کسی ماہر استاد سے قران کریم کے با قاعدہ معانی پڑھے، نہ علوم آلیہ سے شناسائی حاصل کی نہ حدیث کی سند اور معانی کو پڑھا اور نہ اصول تفسیر اور اسول حدیث سے واقفیت حاصل کی ہو، نہ اصول فقہ و قیاس کے وجوہ کو پڑھا ہو صرف کچھ ترجموں کو پڑھ کر بیٹھ گیا ہو وہ مجتہد کیسے بن سکتا ہے؟ تو واضح ہوا کہ مجتہد بننا ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے بس کی بات نہیں۔ 

اجتہاد کا دروازہ بند ہوا یا کھلا ہے؟ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ”۳۰۰ ہجری کے بعد کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوا“ اور امام نووی نے بھی شرح مہذب میں یہی فرمایا کہ اب مجتہد کا آنا نہ تو محال عقلی ہے، نہ شرعی مگر محال مادی ہے، سوچیں اگر آج کوئی مجتہد پیدا ہوا تو آکر کرے گا کیا؟؟؟ اگر آج کا کوئی محدث دعوی کرے کے ساری حدیث کی کتابیں جیسے بخاری و مسلم اور دیگر کتابیں سب غلط ہیں اور محدثین کی عظمت کو ختم کردے تو اس سے دین کو کیا فائدہ ہوگا؟ 

اسی طرح کوئی مجتہد بن کر سارے علمی سرمائے کو ختم کر ڈالے تو اس سے کیا حاصل ہوگا؟ 





سوال نمبر4: مجتہد کو بھی تقلید کرنے کا حکم ہے یا نہیں؟ 

الجواب: یہ تو ایسا سوال ہوا کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں امام بھی ہو اور مقتدی بھی۔ ظاہر ہے کہ یہ امر محال ہے۔ ایک نماز پڑھانے والا ہوتا ہے جو امام ہوتا ہے۔ اور اس پر مقتدی کی چھاپ نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ وہ تو امامت کر ہی رہا ہے۔ یا تو وہ امامت چھوڑ کر اقتدا اپنا لے تو مقتدی ہوجائے گا۔ اور بہر حال یہ سوال تھوڑا دجل و فریب سے پر ہے تو میں مناسب سمجھونگا کہ یہ بتاؤں کہ امام اپنی نماز اپنی مرضی سے نہیں بلکہ سنت کے طریق پر پڑھاتا ہے۔ اسی طرح مجتہد اجتہاد میں اپنی نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو یا تو کتاب و سنت سے ثابت ہو، اگر ثابت نہ ہو تو خلاف بھی نہ ہو۔ حقیقت میں مجتہد بھی قران و سنت اور اجماع کا تابع ہے اس سے ہٹ کر کچھ نہیں کہتا۔ 




سوال نمبر5: جو امام ان چاروں کے سوا ہوئے ہیں ان کے نام کیا ہیں۔ اور ان کی تقلید فرض ہے یا واجب یا مباح ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں۔ حالانکہ وہ ان کے استاد ہیں، ادب میں، زہد میں، فقہ میں، جہاد میں، تقوی میں ان کے بھی بڑے ہیں۔ ان کی بزرگی کے قائل تھے اور ان کا ادب کرتے تھے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقلید نہ کر کے نیچے والوں کی تقلید کرنا کونسی عقل مندی ہے؟
الجواب: اس کا جواب سوال نمبر ۲ کی آخری عبارت میں دے چکا ہوں کہ چار اماموں میں کوئی بھی کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف نہیں گیا۔ اور ان سے پہلے جو علماء و فقہا صحابہؓ و تابعینؒ گذرے انہی کی تحقیقات کو جمع کیا اور چونکہ یہ چار خود بھی اجماع امت سے ثابت شدہ مجتہدین تھے تو اجتہاد سے بھی کام لیا۔ عقل مندی کی بات تو یہ ہے کہ اطیع اللہ و اطیع الرسول پر عمل کیا جائے تو تمام احادیث چاہے ضعیف ہوں یا صحیح سب پر عمل کر لیا جائے، کسی ایک کو بھی نہ چھوڑا جائے، لیکن ہم اس معاملے میں صحابہ کی نہیں بلکہ بعد کے محدثین کی رائے لیکر راویوں کو ثقہ و مجھول ٹھہرا دیتے ہیں۔ امام بخاری کی حدیث کو تو قران کے بعد پہلے درجے کا مانتے ہیں مگر امام احمد بن حنبلؒ جو امام بخاریؒ کے استاد وں میں سے ایک ہیں انکی حدیث کو نسبتاً کم درجہ دیتے ہیں۔ یہ کونسی عقل مندی ہے؟ کیا صحابہ بخاری و مسلم شریف پر عمل کرتے تھے؟ یا صرف حدیث پر؟