Monday, 19 November 2012

غیر مقلدین کے غیر مقلد سوالات اور انکے جوابات




سوال نمبر1: تقلید شخصی اصطلاحی کی تعریف کیا ہے۔ اور یہ فرض ہے، واجب ہے، مستحب ہے یا مباح ہے؟

الجواب: تقلید کی تعریف: کسی کا قول اس لئے ماننا کہ آپ کو یقین ہو کہ وہ شخص کتاب و سنت کے موافق بتلائے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ یہ تقلید کا شرعی معنی ہے، اب تقلید کے مطابق کسی راوی کی روایت کو قبول کر لینا تقلید فی الروایت، اور کسی مجتھد کی درایت کو قبول کرنا تقلید فی الدرایت ہے۔ 

کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو صحیح یا ضعیف کہنا بھی تقلید ہے، اور ثقہ یا مجہول کہنا بھی تقلید۔ 

اسی طرح کسی امتی کے بنائے گئے اصول حدیث و اصول تفسیر و اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید کہلاتا ہے۔ 

اب بات یہ کہ کیا تقلید واجب ہے؟ تقلید واجب ہے جب خود عقل نہ ہو، حدیث اور قران کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، ساتھ ہی اتنی بصیرت نہ ہو کہ کسی غیر منصوص مسئلہ کے مطلب کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔ یہ کام فقہا کا ہے کہ انہوں نے احادیث طیبہ سے وہ مسائل نکالے جو ہماری سوچ میں کبھی نہیں سما سکتے تھے۔ اس لئے ہر انسان جو غیر مجتہد ہو اس پر تقلید واجب ہے، اس کی عام مثال دی جاتی ہے کہ جو خود ڈاکٹر نہ ہو وہ کسی اچھے اور جانے مانے ڈاکٹر سے ہی دوا لے گا، کسی لا علم سے ہرگز نہیں اور اسی طرح نہ ہی اس ڈاکٹر کے دئے گئے نسخے کو جا کر علمِ طب کی کتب میں تصدیق کرے گا اور پھر کھائے گا۔ بلکہ وہ اسی بھروسے پر اس دوا کو استعمال کرے گا کہ اس ڈاکٹر (جو سب مریضوں اور تجربہ کاروں کے مطابق اچھا اور مستند مانا ہوا ہے) نے اسے صحیح دوا تجویز کی ہے۔ اور انشا اللہ شفایاب بھی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تقلید اس ڈاکٹر کی واجب ہے۔ ہم بھی بیمار ہیں، اور جانتے ہیں کہ جب تک کوئی بڑا طبیب علاج کے لئے میسر نہ آئے ہمارے مرض کا درماں ممکن نہیں، اس لئے فقیہہ امام کی تقلید ضروری ہے ورنہ کیا ہوتا ہے؟ 

ورنہ یہ ہوتا ہے کہ میں محدث ہی کیوں نہ ہوجاؤں مگر فقہ سے نا واقف ہوں تو حدیث کا سمجھنے سے قاصر رہ سکتا ہوں جیسے ایک غیر فقیہہ محدث چالیس سال تک یہ نظریہ اپنائے رکھا کہ نماز جمعہ سے پہلے سر منڈوانا درست نہیں اور حدیث کیا تھی؟ ”نَھٰی عَنِ الحَلَقِ قَبلَ الصَّلٰوۃِ یَومُ الجُمُعَہ“ 

یہی حال ہوتا ہے جب تقلید نہیں ہوتی، اپنی عقل چلتی ہے، پیروی چھوٹ جاتی ہے، گمراہی آجاتی ہے۔ 

مقلد اپنے آپ کو مقلد کہتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ قران اور حدیث کے خلاف ہے، بلکہ وہ ایسے شخص کا مقلد ہے جو قران اور حدیث کو اس مقلد اور ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں سے زیادہ سمجھتا ہے اور جو وہ سمجھاتا ہے مقلد اسکی بات کو مان لیتا ہے۔ لیکن یہ کہاں ہے کہ مقلد حدیث کو نہیں بلکہ امام کو مانتا ہے؟ یہ ایسی ہی بات ہے کہ میں سائنس کہ ٹیچر کی بات سنوں تو مجھ پر طعن ہو کہ تم سائنس کی ٹیکسٹ بک کو چھوڑ کر ٹیچر کی بات مانتے ہو۔ اور یہ غلط ہے، مگر میں کیا کروں کہ مجھے اس ٹیکسٹ بک کی سمجھ نہیں آتی مگر ٹیچر اسی ٹیکسٹ بک میں سے وہ کچھ سمجھا دیتا ہے جو میرے وہم و گمان تک میں نہ تھا۔۔۔۔ تو ٹیچر کی تقلید واجب ہے مجھ پر۔ 

غیر مقلدین کے شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ فرماتے ہیں: 

”تقلید کا اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ ماننا اور عمل کرنا اس شخص کے قول پر بلا دلیل جس کا قول حجت شرعی نہ ہو، تو اس اصطلاح کی بنیاد پر عامی کا مجتھدوں کی طرف رجوع کرنا کوئی تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ تقلید کے معنی عرف میں یہ ہیں کہ وقت لا علمی میں میں کسی اہل علم کا قول اور اس پر عمل کرنا اور اسی عرفی معنی میں مجتہدوں کی ”اتباع“ کو تقلید کہا جاتا ہے“ 

گویا اتباع ہی تقلید ہے اور تقلید کا معنی ہی اتباع کرنا ہے۔ (معیار الحق) 

آگے عقیدۃ الفرید کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: 

اور فاضل حبیب اللہ قندھاری ؒ فرماتے ہیں: 

تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جس کا قول حجت شرعیہ نہ ہو سو رجوع کرنا آنحضرت ﷺ کی اور اجماع کی طرف تقلید نہیں کہلائے گا۔ اور اسی طرح کسی انجان کا مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا یا کسی قاضی کا ثقہ آدمی کے قول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں کہلائے گا کیونکہ یہ تو بحکم شرع واجب ہے۔ اب اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب یہ چیز واجب ہے تو اتباع کو اگر تقلید کا نام دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں (بحوالہ ایضاً امام الحرمین) 

اس مفصل عبارت سے ثابت ہوا: 

۱۔ لا علمی کے وقت مجتہد کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ 

۲۔ مجتہدین کی اتباع کو تقلید بھی کہا جاتا ہے یعنی بالمآل تقلید اور اتباع میں کوئی فرق نہیں 

۳۔ لا علم اور انجان کا کسی مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ بحکم شرع واجب ہے 

۴۔ جس طرح مجتہدین کے اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے اسی طرح رسولﷺ کی اتباع کو بھی تقلید کہنا جائز ہے۔ 



امید ہے کہ سمجھ آیا ہو کچھ 



سوال نمبر2: اجماع کی تعریف کیا ہے۔ اور اجماع کن لوگوں کا معتبر ہے؟ تقلید شخصی اصطلاحی پر کیا اجماع ہوا ہے۔ اگر ہوا ہے تو کب، کہاں اور کن کا؟
الجواب: اجماع کی تعریف مختصر یہ کہ جس چیز پر امت کا اکثر یہ بہت زیادہ حصہ جمع ہوجاوے، اس سے سیدھی سی بات یہ مراد ہے کے امت مسلمہ ایک وقت میں غلط بات یا کسی غلط مسئلے پر جمع نہیں ہوسکتی۔ مثلاً ایک ہی وقت میں پوری امت بیس تراویح پر جمع ہوئی اور صدیوں جمع ہی رہی بلکہ آج تک جمع ہے یہ اجماع ہے۔ اس میں معتبر ہونا کسی ایک زمانے یا کسی ایک طرح کے لوگوں کو شرط نہیں بنایا جاسکتا معتبر ہونے کے لئے۔ مثلاً پہلے بھی سب بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے، آج بھی امت کا اجماع اسی پر ہے۔ (کوئی ایک جماعت اپنی ڈیڑھ اینٹ کی چن کر بیٹھ جائے تو وہ اجماع امت میں نہیں آتی اور انشا اللہ کبھی آئے گی بھی نہیں۔) مولانا فضل محمد صاحب دامت برکاتہم بنوری ٹاؤن کے۔ میرے ساتھ عشائیہ تناول فرما رہے تھے۔ کہنے لگے کہ مزمل بیٹا ”کتیا ایک ساتھ آٹھ بچے دیتی ہے۔ اور بکری دو ہی بچے دیتی ہے۔ لیکن ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ حرام کبھی پنپ نہیں سکتا اور کتیا کے بچے کوئی کھاتا بھی نہیں پھر بھی بکری کے بچوں کی تعداد آپ خود سمجھ سکتے ہیں“ ۔ اسی طرح ایک وقت میں اجماع امت کسی غلط بات پر ممکن نہیں اور اجماع امت حق والوں کے لئے ایک مضبوط سے مضبوط دلیل بھی ہے۔ 

تقلید شخصی پر آئیں تو پتا لگتا ہے کہ ہر دور میں تقلید ہوئی، صحابہ میں بھی تقلید شخصی کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے قرۃ العین میں لکھا ہے۔ پھر یہ بھی کہ سب صحابہ میں کوئی ایک بھی غیر مقلد نہیں تھا۔ یا تو مجتھد تھے یا مقلد۔ صحابہ کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ رہی مگر فقیہ صحابہؓ جن کی تقلید الگ الگ جگہوں پر ہوتی وہ مفتی صحابہؓ کل 149 تھے اور ان میں مکثرین کی تعداد سات ہے جنہوں نے بہت زیادہ تعداد میں فتوے دئے، بیس متوسطین تھے جنہوں نے کئی ایک فتوے دئے، اور ایک سو بائیس مقلین یعنی ایسے ہیں جنہوں نے بہت کم تعداد میں فتوے دئے۔ ان مفتی صحابہ کرام ؓ کے ہزاروں فتوے مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہین جن میں ان مفتیان کرام نے صرف مسئلہ بتایا ہے دلیل میں کسی حدیث یا آیت کو نہ تو طلب کیا گیا اور نہ ہی پیش کیا گیا اور انہی فتاوی پر مقلد صحابہؓ عمل کیا۔ اسی کو تقلید کہا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ الانصاف میں فرماتے ہیں ”صحابہؓ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہر علاقے میں ایک صحابی کی تقلید شخصی کی جاتی۔ “ 

جیسے مکہ میں ابن عباسؓ، مدینہ میں زید بن ثابت ؓ کوفہ میں عبد اللہ بن مسعودؓ یمن میں معاذ ؓ بصرہ میں انس ؓ ۔ پھر شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ تابعین کے دور میں ہر تابعی کا ایک مذہب قرار پایا اور ہر شہر میں ایک امام ہو گیا، لوگ اسکی تقلید کیا کرتے۔ الغرض یہ کہ تقلید صحابہؓ اور تابعینؒ کے دور سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ اب مسئلہ یہ کہ ان صحابہ و تابعین فقہا کی مرتب کردہ کتابیں ہم میں موجود نہیں لیکن پھر ائمہ اربعہ نے انکے مذہب کو جمع کرکے مرتب کردیا اور انہی ائمہ اربعہ کے واسطے سے ان سب فقہا کی تقلید آج تک ہوتی آرہی ہے یہی اجماع امت ہے جو دور صحابہ سے لیکر آج تک چلتا چلا آرہا ہے۔ 




سوال نمبر3: اجتہاد کی تعریف کیا ہے۔ اجتہاد کے لیے کن علوم کی ضرورت ہے اور کیوں۔ کیا اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔ اگر نہیں تو پہلے کیوں کھلا تھا اور کس نے کھولا تھا۔ اب کیوں بند ہو گیا ہے۔ اور کس نے بند کیا ہے؟
الجواب: اجتہاد کو اختصار کے ساتھ یوں کہوں کہ جو مسئلہ کتاب اللہ اور سنت سے واضح طور پر ثابت نہ ہو یعنی غیر منصوص ہو تو ایسے مسائل کو اجتہاد سے حل کیا جاتا ہے۔ سوچیں اگر انسان، حیوان، جنات، پیشاب، پاخانہ، پھر ان سے متعلق شاخیں، پھر ان شاخوں کی شاخیں، پھر شاخوں کی شاخوں کی شاخیں سب کچھ اگر قران کریم اور احادیث میں صراحتاً ثابت ہوتا تو احادیث کی تعداد اربوں یا کھربوں میں ہوتی۔ 

کتاب و سنت ضابطہ حیات ہیں اس پر امت کا اجماع ہے اور ہر کوئی مانتا ہے۔ اب ضابطہ کیا ہوتا ہے؟ ضابطہ ایک حد ہوتی ہے جس سے باہر نکلنا ضابطہ کے خلاف ہے۔ 

اس صورت میں اگر ایک مجتہد یا ایک فقیہہ قیاس کر کے کے کوئی مسئلہ نکالے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قران و سنت (یعنی ضابطہ حیات) سے ہٹ گیا اور قیاس کرکے مسئلہ ایجاد کرلیا۔ 

مجتہد ہونے کی شرائط علی بن محمد البزدوی الحنفی ؒ فرماتے ہیں مختصر بیان کر دیتا ہوں: 

”اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ مجتہد کتاب اللہ کی معانی اور حدیث کی اسانید اور متون اور ان کی معانی کے طریقوں کے علم پر حاوی ہو اور یہ کہ قیاس اور اس کے طرق کو بھی جانتا ہو“ 

یعنی مجتہد کے لئے یہ بنیادی شرط ہے کہ کتاب اللہ کی معانی پر عبور رکھتا ہو اور حدیث کی اسانید اور اسکے متون پر بھی اس کا علم حاوی ہو اور اخذ معانی مثلاً عبارۃ النص، اشارۃ النص، دلالۃ النص، اور اقتضاء النص وغیرہ کے وجوہ کو بھی بخوبی جانتا ہو۔ ظاہر امر ہے کہ جس نے نہ تو کسی ماہر استاد سے قران کریم کے با قاعدہ معانی پڑھے، نہ علوم آلیہ سے شناسائی حاصل کی نہ حدیث کی سند اور معانی کو پڑھا اور نہ اصول تفسیر اور اسول حدیث سے واقفیت حاصل کی ہو، نہ اصول فقہ و قیاس کے وجوہ کو پڑھا ہو صرف کچھ ترجموں کو پڑھ کر بیٹھ گیا ہو وہ مجتہد کیسے بن سکتا ہے؟ تو واضح ہوا کہ مجتہد بننا ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے بس کی بات نہیں۔ 

اجتہاد کا دروازہ بند ہوا یا کھلا ہے؟ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ”۳۰۰ ہجری کے بعد کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوا“ اور امام نووی نے بھی شرح مہذب میں یہی فرمایا کہ اب مجتہد کا آنا نہ تو محال عقلی ہے، نہ شرعی مگر محال مادی ہے، سوچیں اگر آج کوئی مجتہد پیدا ہوا تو آکر کرے گا کیا؟؟؟ اگر آج کا کوئی محدث دعوی کرے کے ساری حدیث کی کتابیں جیسے بخاری و مسلم اور دیگر کتابیں سب غلط ہیں اور محدثین کی عظمت کو ختم کردے تو اس سے دین کو کیا فائدہ ہوگا؟ 

اسی طرح کوئی مجتہد بن کر سارے علمی سرمائے کو ختم کر ڈالے تو اس سے کیا حاصل ہوگا؟ 





سوال نمبر4: مجتہد کو بھی تقلید کرنے کا حکم ہے یا نہیں؟ 

الجواب: یہ تو ایسا سوال ہوا کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں امام بھی ہو اور مقتدی بھی۔ ظاہر ہے کہ یہ امر محال ہے۔ ایک نماز پڑھانے والا ہوتا ہے جو امام ہوتا ہے۔ اور اس پر مقتدی کی چھاپ نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ وہ تو امامت کر ہی رہا ہے۔ یا تو وہ امامت چھوڑ کر اقتدا اپنا لے تو مقتدی ہوجائے گا۔ اور بہر حال یہ سوال تھوڑا دجل و فریب سے پر ہے تو میں مناسب سمجھونگا کہ یہ بتاؤں کہ امام اپنی نماز اپنی مرضی سے نہیں بلکہ سنت کے طریق پر پڑھاتا ہے۔ اسی طرح مجتہد اجتہاد میں اپنی نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو یا تو کتاب و سنت سے ثابت ہو، اگر ثابت نہ ہو تو خلاف بھی نہ ہو۔ حقیقت میں مجتہد بھی قران و سنت اور اجماع کا تابع ہے اس سے ہٹ کر کچھ نہیں کہتا۔ 




سوال نمبر5: جو امام ان چاروں کے سوا ہوئے ہیں ان کے نام کیا ہیں۔ اور ان کی تقلید فرض ہے یا واجب یا مباح ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں۔ حالانکہ وہ ان کے استاد ہیں، ادب میں، زہد میں، فقہ میں، جہاد میں، تقوی میں ان کے بھی بڑے ہیں۔ ان کی بزرگی کے قائل تھے اور ان کا ادب کرتے تھے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقلید نہ کر کے نیچے والوں کی تقلید کرنا کونسی عقل مندی ہے؟
الجواب: اس کا جواب سوال نمبر ۲ کی آخری عبارت میں دے چکا ہوں کہ چار اماموں میں کوئی بھی کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف نہیں گیا۔ اور ان سے پہلے جو علماء و فقہا صحابہؓ و تابعینؒ گذرے انہی کی تحقیقات کو جمع کیا اور چونکہ یہ چار خود بھی اجماع امت سے ثابت شدہ مجتہدین تھے تو اجتہاد سے بھی کام لیا۔ عقل مندی کی بات تو یہ ہے کہ اطیع اللہ و اطیع الرسول پر عمل کیا جائے تو تمام احادیث چاہے ضعیف ہوں یا صحیح سب پر عمل کر لیا جائے، کسی ایک کو بھی نہ چھوڑا جائے، لیکن ہم اس معاملے میں صحابہ کی نہیں بلکہ بعد کے محدثین کی رائے لیکر راویوں کو ثقہ و مجھول ٹھہرا دیتے ہیں۔ امام بخاری کی حدیث کو تو قران کے بعد پہلے درجے کا مانتے ہیں مگر امام احمد بن حنبلؒ جو امام بخاریؒ کے استاد وں میں سے ایک ہیں انکی حدیث کو نسبتاً کم درجہ دیتے ہیں۔ یہ کونسی عقل مندی ہے؟ کیا صحابہ بخاری و مسلم شریف پر عمل کرتے تھے؟ یا صرف حدیث پر؟

0 comments:

Post a Comment