الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين وخاتم النبیین والمرسلین سيدنا محمد وعلى آله وصحبہ اجمعین
فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے وساوس واکاذیب
فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء میں بہت ساری صفات قبیحہ پائ جاتی هیں ، بدگمانی ، بدزبانی ، خودرائ ، کذب وفریب ، جہالت وحماقت ، اس فرقہ کے اهم اوصاف هیں ، اور انهی صفات قبیحہ کے ذریعہ هی عوام الناس کوگمراه کرتے هیں ، لہذا ایک دیندار ذی عقل مسلمان کے لیئےضروری هے کہ دین کے معاملہ میں فرقہ اهل حدیث کے نام نہاد جاهل شیوخ کی طرف هرگز رجوع واعتماد نہ کرے ، اور یقین کیجیے کہ میں یہ بات کسی ذاتی تعصب وعناد کی بنیاد پرنہیں کہ رها ، بلکہ انتهائ بصیرت وحقیقی مشاهده کی بات کر رها هوں ،
ان کا جہل وکذب اهل علم پر تو بالکل عیاں هے ، لیکن عام آدمی ان کی ملمع سازی اور وساوس و اکاذیب کی جال میں پهنس جاتا هے ،
ذیل میں فرقہ اهل حدیث کے مشہور وساوس و اکاذیب کا تذکره کروں گا ، تاکہ ایک عام آدمی ان کے وساوس ودجل وفریب سے واقف هوجائے ،
وسـوســه 1 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی اتباع بہتر هے یا محمد رسول الله کی ؟؟
جواب = یہ وسوسہ ایک عام آدمی کو بڑا خوشنما معلوم هوتا هے ، لیکن دراصل یہ وسوسہ بالکل باطل وفاسد هے ، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تقابل کرنا هی غلط هے ، بلکہ نبی کا مقابلہ امتی سے کرنا یہ توهین وتنقیص هے ،
بلکہ اصل سوال یہ هے کہ کیا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ اسلام ) کی راهنمائ میں بہترهے یا اپنے نفس کی خواهشات اور آج کل کے نام نہاد جاهل شیوخ کی اتباع میں بہترهے ؟؟
لہذا هم کہتے هیں کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ مجتهدین ) کی اتباع وراهنمائ میں کرنا ضروری هے ، اور اسی پرتمام اهل سنت عوام وخواص سلف وخلف کا اجماع واتفاق هے ، لیکن بدقسمتی سے هندوستان میں انگریزی دور میں ایک جدید فرقہ پیدا کیا گیا جس نے بڑے زور وشور سے یہ نعره لگانا شروع کیا کہ دین میں ان ائمہ مجتهدین خصوصا امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله کی اتباع وراهنمائ ناجائز وشرک هے ، لہذا ایک عام آدمی کو ان ائمہ اسلام کی اتباع وراهنمائ سے نکال کر ان جہلاء نے اپنی اور نفس وشیطان کی اتباع میں لگادیا ، اور هر کس وناکس کو دین میں آزاد کردیا اور نفسانی وشیطانی خواهشات پرعمل میں لگا دیا ، اور وه حقیقی اهل علم جن کے بارے قرآن نے کہا ( فاسئلوا اهل الذکران کنتم لا تعلمون ) عوام الناس کو ان کی اتباع سے نکال کر ان جاهل لوگوں کی اتباع میں لگا دیا جن کے بارے حضور صلی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
( فأفتوا بغیرعلم فضلوا وأضلوا )
اور ان جہلاء کی تقلید واتباع کا صراط مستقیم رکهہ دیا ، اور عام لوگوں کو قرآن وسنت کے نام پراپنی طرف بلاتے هیں ، لیکن درحقیقت عام لوگوں کوچند جہلاء کی اندهی تقلید واتباع میں ڈال دیا جاتا هے ،
فإلى الله المشتكى وهوالمستعان ٠
وسـوســه 2 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ؟؟
جواب = یہ وسوسہ بہت پرانا هے جس کو فرقہ اهل حدیث کے جہلاء نقل درنقل چلے آرهے هیں ، اس وسوسہ کا اجمالی جواب تو ( لعنة الله علی الکاذبین ) هے ، اور یہ انهوں نے ( تاریخ ابن خلدون ) کتاب سے لیا هے ، ایک طرف تو اس فرقہ کا دعوی هے کہ همارے اصول صرف قرآن وسنت هیں ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے اس درجہ بغض هے کہ ان کے خلاف جو بات جہاں سے بهی ملے وه سر آنکهوں پر اس کے لیئے کسی دلیل وثبوت وتحقیق کی کوئ ضرورت نہیں اگرچہ کسى مجہول آدمی کا جهوٹا قول کیوں نہ هو ،
یہی حال هے ابن خلدون کے نقل کرده اس قول کا هے ،
تاریخ ابن خلدون میں هے (( فابوحنیفه رضی الله عنه یُقال بلغت روایته الی سبعة عشر حدیثا اونحوها ))
فرقہ اهل حدیث کے جاهل شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے اس کا ترجمہ کرتے هیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، حالانکہ اس عبارت کا یہ ترجمہ بالکل غلط هے ، بلکہ صحیح ترجمہ یہ هے کہ ابوحنیفہ رضی الله عنه کے متعلق کہا جاتا هے کہ ان کی روایت ( یعنی مَرویات ) ستره ( 17 ) تک پہنچتی هیں ،
اس قول میں یہ بات نہیں هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، تو ابن خلدون کے ذکرکرده اس قول مجہول کا مطلب یہ هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے جواحادیث روایت کیں هیں ان کی تعداد ستره ( 17 ) هے ، یہ مطلب نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کُل ستره ( 17 ) احادیث پڑهی هیں ، اور اهل علم جانتے هیں کہ روایت حدیث میں کمی اور قلت کوئ عیب ونقص نہیں هے ، حتی کہ خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی روایات دیگر صحابہ کی نسبت بہت کم هیں ،
2 = تاریخ ابن خلدون ج ۱ ص ۳۷۱ ) پر جو کچهہ ابن خلدون رحمہ الله نے لکها هے ، وه اگربغور پڑهہ لیا جائے تواس وسوسے اوراعتراض کا حال بالکل واضح هوجاتا هے ۰
3 = ابن خلدون رحمہ الله نے یہ قول ( یُقال ) بصیغہ تَمریض ذکرکیا هے ، اور علماء کرام خوب جانتے هیں کہ اهل علم جب کوئ بات ( قیل ، یُقالُ ) سے ذکرکرتے هیں تو وه اس کے ضعف اورعدم ثبوت کی طرف اشاره هوتا هے ،
اور پهر یہ ابن خلدون رحمہ الله کا اپنا قول نہیں هے ، بلکہ مجهول صیغہ سے ذکرکیا هے ، جس کا معنی هے کہ ( کہا جاتا هے ) اب یہ کہنے والا کون هے کہاں هے کس کوکہا هے ؟؟
کوئ پتہ نہیں ، پهر ابن خلدون رحمہ الله نے کہا ( اونَحوِها ) یعنی ان کوخود بهی نہیں معلوم کہ ستره هیں یا زیاده ۰
4 = ابن خلدون رحمہ الله مورخ اسلام هیں لیکن ان کو ائمہ کی روایات کا پورا علم نہیں هے ، مثلا وه کہتے هیں کہ امام مالک رحمہ الله کی مَرویّات (موطا ) میں تین سو هیں ، حالانکہ شاه ولی الله رحمہ الله فرماتے هیں کہ (موطا مالک) میں ستره سو بیس ( 1720 ) احادیث موجود هیں ۰
5 = اور اس وسوسہ کی تردید کے لیئے امام اعظم رحمہ الله کی پندره مسانید کو هی دیکهہ لینا کافی هے ، جن میں سے چار تو آپ کے شاگردوں نے بلاواسطہ آپ سے احادیث سن کرجمع کی هیں ، باقی بالواسطہ آپ سے روایت کی هیں ،
اس کے علاوه امام محمد امام ابویوسف رحمهما الله کی کتب اور مُصنف عبدالرزاق اور مُصنف ابن ابی شیبہ هزاروں روایات بسند مُتصل امام اعظم رحمہ الله سے روایت کی گئ هیں ، اور امام محمد رحمہ الله نے ( کتاب الآثار ) میں تقریبا نوسو ( 900 ) احادیث جمع کی هیں ، جس کا انتخاب چالیس هزار احادیث سے کیا ۰
6 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ائمہ حدیث نے حُفاظ حدیث میں شمارکیا هے ،
عالم اسلام کے مستند عالم مشہور ناقد حدیث اور علم الرجال کے مستند ومُعتمد عالم علامہ ذهبی رحمہ الله نے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ذکراپنی کتاب ( تذکره الحُفَّاظ ) میں کیا هے ، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاهر هے کہ اس میں حُفاظ حدیث کا تذکره کیا گیا هے ، اور محدثین کے یہاں ( حافظ ) اس کو کہاجاتا هے جس کو کم ازکم ایک لاکهہ احادیث متن وسند کے ساتهہ یاد هوں اور زیاده کی کوئ حد نہیں هے ، امام ذهبی رحمہ الله تو امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو حُفاظ حدیث میں شمار کریں ، اور انگریزی دور کا نومولود فرقہ اهل حدیث کہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره احادیث یاد تهیں ،
( تذکره الحُفَّاظ ) سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ترجمہ درج ذیل هے ،
تذكرة الحفاظ/الطبقة الخامسة
أبو حنيفة
الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي: مولده سنة ثمانين رأى أنس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفة، رواه ابن سعد عن سيف بن جابر أنه سمع أبا حنيفة يقوله. وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الأعرج وعدي بن ثابت وسلمة بن كهيل وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وأبي إسحاق وخلق كثير. تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضي أبو يوسف ومحمد بن الحسن وأسد بن عمرو والحسن بن زياد اللؤلؤي ونوح الجامع وأبو مطيع البلخي وعدة. وكان قد تفقه بحماد بن أبي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وأبو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم وأبو عبد الرحمن المقري وبشر كثير. وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب.
قال ضرار بن صرد: سئل يزيد بن هارون أيما أفقه: الثوري أم أبو حنيفة؟ فقال: أبو حنيفة أفقه وسفيان أحفظ للحديث. وقال ابن المبارك: أبو حنيفة أفقه الناس. وقال الشاقعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفة. وقال يزيد: ما رأيت أحدًا أورع ولا أعقل من أبي حنيفة. وروى أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا. قال أبو داود : إن أبا حنيفة كان إماما.
وروى بشر بن الوليد عن أبي يوسف قال: كنت أمشي مع أبي حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا ينام الليل، فقال: والله لا يتحدث الناس عني بما لم أفعل، فكان يحيي الليل صلاة ودعاء وتضرعا. قلت: مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء. كان موته في رجب سنة خمسين ومائة .
أنبأنا ابن قدامة أخبرنا بن طبرزد أنا أبو غالب بن البناء أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى أنا أبو عبد الرحمن المقرئ عن أبي حنيفة عن عطاء عن جابر أنه رآه يصلي في قميص خفيف ليس عليه إزار ولا رداء قال: ولا أظنه صلى فيه إلا ليرينا أنه لا بأس بالصلاة في الثوب الواحد
وسوسه 3 = امام ابوحنيفه رحمه الله ضعيف راوى تهے محدثین نے ان پرجرح کی هے ؟؟
جواب = دنیائے اسلام کی مستند ائمہ رجال کی صرف دس کتابوں کا نام کروں گا ، جو اس وسوسه کو باطل کرنے کے لیئے کافی هیں ،
1 = امام ذهبی رحمه الله حدیث و رجال کے مسنتد امام هیں ، اپنی کتاب ( تذکرة الحُفاظ ) میں امام اعظم رحمه الله کے صرف حالات ومناقب وفضائل لکهے هیں ، جرح ایک بهی نہیں لکهی ، اور موضوع کتاب کے مطابق مختصر مناقب وفضائل لکهنے کے بعد امام ذهبی رحمه الله نے کہا کہ میں نے امام اعظم رحمه الله کے مناقب میں ایک جدا و مستقل کتاب بهی لکهی هے ۰
2 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) میں جرح نقل نہیں کی ، بلکہ حالات ومناقب لکهنے کے بعد اپنے کلام کو اس دعا پرختم کیا ( مناقب أبي حنيفة كثيرة جدا فرضي الله عنه وأسكنه الفردوس آمين
امام ابوحنيفه رحمه الله کے مناقب کثیر هیں ، ان کے بدلے الله تعالی ان سے راضی هو اور فردوس میں ان کو مقام بخشے ، آمین ، ۰
3 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تقريب التهذيب ) میں بهی کوئ جرح نقل نہیں کی ۰
4 = رجال ایک بڑے امام حافظ صفی الدین خَزرجی رحمه الله نے ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) میں صرف مناقب وفضائل لکهے هیں ، کوئ جرح ذکرنہیں کی ، اور امام اعظم رحمه الله کو امام العراق وفقیه الامة کے لقب سے یاد کیا ، واضح هو کہ کتاب ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) کے مطالب چارمستند کتابوں کے مطالب هیں ، خود خلاصة ، اور
5 = تذهيب ، امام ذهبی رحمه الله ۰
6 = ألكمال في أسماء الرجال ، امام عبدالغني المَقدسي رحمه الله ۰
7 = تهذيب الكمال ، امام ابوالحجاج المِزِّي رحمه الله ۰
کتاب ( ألكمال ) کے بارے میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) کے خطبہ میں لکهتے هیں کہ
كتاب الكمال في أسماء الرجال من أجل المصنفات في معرفة حملة الآثار وضعا وأعظم المؤلفات في بصائر ذوي الألباب وقعا ) اور خطبہ کے آخرمیں کتاب ( ألكمال ) کے مؤلف بارے میں لکها، هو والله لعديم النظير المطلع النحرير ۰
8 = کتاب تهذيب الأسماء واللغات ، میں امام نووي رحمه الله سات صفحات امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ،
9 = کتاب مرآة الجنان ، میں امام یافعی شافعی رحمه الله امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں کوئ جرح نقل نہیں کی ، حالانکہ امام یافعی نے ( تاریخ بغداد ) کے کئ حوالے دیئے هیں ، جس سے صاف واضح هے کہ خطیب بغدادی کی منقولہ جرح امام یافعی کی نظرمیں ثابت نہیں ۰
10 = فقيه إبن العماد ألحنبلي رحمه الله اپنی کتاب شذرات الذهب میں صرف حالات ومناقب هی لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ۰
اسی طرح اصول حدیث کی مستند کتب میں علماء امت نے یہ واضح تصریح کی هے ، کہ جن ائمہ کی عدالت وثقاهت وجلالت قدر اهل علم اور اهل نقل کے نزدیک ثابت هے ، ان کے مقابلے میں کوئ جرح مقبول و مسموع نہیں هے ،
وسوسه 4 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله مُحدث نہیں تهے ، ان کو علم حدیث میں کوئ تبحر حاصل نہیں تها ؟؟
جواب = یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جہلاء آج تک نقل کرتے چلے آرهے هیں ، اهل علم کے نزدیک تو یہ وسوسہ تارعنکبوت سے زیاده کمزور هے ، اور دن دیہاڑے چڑتے سورج کا انکار هے ، اور روشن سورج اپنے وجود میں دلیل کا محتاج نہیں هے ، اور چمگادڑ کو اگرسورج نظرنہیں آتا تواس میں سورج کا کیا قصور هے ؟ بطور مثال امام اعظم رحمہ الله کی حلقہ درس میں برسہا برس شامل هونے والے چند جلیل القدر عظیم المرتبت محدثین وائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش کرتا هوں ، جن میں هرایک اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم وحکمت کا سمندر هے ،
1 = امام یحی ابن سعید القطان ، علم الجرح والتعدیل کے بانی اور امام هیں
2 = امام عبدالرزاق بن همام ، جن کی کتاب ( مُصَنَّف ) مشہورومعروف هے ، جن کی جامع کبیر سے امام بخاری نے فیض اٹهایا هے
3 = امام یزید ابن هارون ، امام احمد بن حنبل کے استاذ هیں
4 = امام وکیع ابن جَرَّاح ، جن کے بارے امام احمد فرمایا کرتے کہ حفظ واسناد و روایت میں ان کا کوئ هم سر نہیں هے
5 = امام عبدالله بن مبارک ، جو علم حدیث میں بالاتفاق امیرالمومنین هیں
6 = امام یحی بن زکریا بن ابی زائده ، امام بخاری کے استاذ علی بن المَدینی ان کو علم کی انتہاء کہا کرتے تهے
7 = قاضی امام ابویوسف ، جن کے بارے امام احمد نے فرمایا کہ میں جب علم حدیث کی تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے قاضی امام ابویوسف کی مجلس میں بیٹها ،
8 = امام محمد بن حسن الشیبانی جن کے بارے امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے ایک اونٹ کے بوجهہ کے برابرعلم حاصل کیا هے ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ( تهذيب التهذيب ج 1 ص 449 ) میں امام اعظم کے تلامذه کا ذکرکرتے هوئے درج ذیل مشاهیر ائمہ حدیث کا ذکرکیا
تهذيب التهذيب ، حرف النون
وعنه ابنه حماد وإبراهيم بن طهمان وحمزة بن حبيب الزيات وزفر بن الهذيل وأبو يوسف القاضي وأبو يحيى الحماني وعيسى بن يونس ووكيع ويزيد بن زريع وأسد بن عمرو البجلي وحكام بن يعلى بن سلم الرازي وخارجة بن مصعب وعبد المجيد بن أبي رواد وعلي بن مسهر ومحمد بن بشر العبدي وعبد الرزاق ومحمد بن الحسن الشيباني ومصعب بن المقدام ويحيى بن يمان وأبو عصمة نوح بن أبي مريم وأبو عبد الرحمن المقري وأبو عاصم وآخرون ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ( وآخرون ) کہ کراشاره کردیا کہ امام اعظم کے شاگردوں میں صرف یہ کبارائمہ هی شامل نہیں بلکہ ان کے علاوه اور بهی هیں ،
اوران میں اکثرامام بخاری کے استاذ یا استاذ الاساتذه هیں ،
یہ ایک مختصرسی شہادت میں نے حدیث ورجال کے مستند امام حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی کی زبانی آپ کے سامنے پیش کی هے ، تو پهربهی کوئ جاهل امام اعظم کے بارے یہ کہے کہ ان کو حدیث کا علم حاصل نہیں تها ، کیا یہ جلیل القدرمحدثین اورائمہ امام اعظم کی درس میں محض گپ شپ اورهوا خوری کے لیئے جایا کرتے تهے ؟؟
کیا ایک عقل مند آدمی ان ائمہ حدیث اور سلف صالحین کی تصریحات کوصحیح اور حق تسلیم کرے گا یا انگریزی دور میں پیدا شده جدید فرقہ اهل حدیث کے وساوس واباطیل کو ؟؟
وسوسه 5 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تهے ؟؟
جواب = یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جهلاء نےامام اعظم کے ساتهہ بغض وعناد کی بناء پر مشہورکیا ، جبکہ اهل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وکاذب هے ،
یاد رکهیں کہ جمہور محدثین کے نزدیک محض کسی صحابی کی ملاقات اور رویت سے آدمی تابعی بن جاتا هے ، اس میں صحابی کی صحبت میں ایک مدت تک بیٹهنا شرط نہیں هے ،
حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (شرح النخبه ) میں فرمایا ( هذا هوالمختار ) یہی بات صحیح ومختارهے ۰
امام اعظم رحمہ الله کو بعض صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل هوا هے ،
اور امام اعظم رحمہ الله کا حضرت انس رضی الله عنہ سے ملاقات کو اور آپ کی تابعی هونے کو محدثین اور اهل علم کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا هے
1 = ابن سعد نے اپنی کتاب ( الطبقات ) میں، 2 = حافظ ذهبی نے اپنی کتاب (تذکره الحُفاظ ) میں ، 3 = حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ( تهذیب التهذیب ) میں اور اسی طرح ایک فتوی میں بهی جس کو امام سیوطی نے ( تبییض الصحیفه ) میں نقل کیا هے ، 4 = حافظ عراقی ، 5 امام دارقطنی ، 6 = امام ابومعشرعبدالکریم بن عبدالصمد الطبری المقری الشافعی ، 7 = امام سیوطی ، 8 = حافظ ابوالحجاج المِزِّی ، 9 = حافظ ابن الجوزی ، 10 = حافظ ابن عبدالبر ،
11 = حافظ السمعانی ، 12 = امام نووی ، 13 = حافظ عبدالغنی المقدسی ،
14 = امام جزری ، 15 = امام تُوربِشتی ، 16 = امام سراج الدین عمربن رسلان البُلقینی ، اپنے زمانہ کے شیخ الاسلام هیں اور حافظ ابن حجر کے شیخ هیں ،
17 = امام یافعی شافعی ، 18 = علامہ ابن حجرمکی شافعی ، 19 = علامہ احمد قسطلانی ، 20 = علامہ بدرالدین العینی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی اجمعین
بطورمثال اهل سنت والجماعت کے چند مستند ومعتمد ائمہ کے نام میں نے ذکرکیئے هیں ، ان سب جلیل القدر ائمہ کرام نے امام اعظم رحمہ الله کو تابعی قراردیا هے ، اب ان حضرات ائمہ کی بات حق وسچ هے یا انگریزی فرقہ اهل حدیث میں شامل جهلاء کا وسوسہ اور جهوٹ ؟
تحریر: ایم حافظ خان
0 comments:
Post a Comment