This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

Friday 14 December 2012

فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے وساوس واکاذیب



الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين وخاتم النبیین والمرسلین سيدنا محمد وعلى آله وصحبہ اجمعین 



فرقہ جديد نام نہاد اهل حدیث کے وساوس واکاذیب 



فرقہ اهل حدیث میں شامل جہلاء میں بہت ساری صفات قبیحہ پائ جاتی هیں ، بدگمانی ، بدزبانی ، خودرائ ، کذب وفریب ، جہالت وحماقت ، اس فرقہ کے اهم اوصاف هیں ، اور انهی صفات قبیحہ کے ذریعہ هی عوام الناس کوگمراه کرتے هیں ، لہذا ایک دیندار ذی عقل مسلمان کے لیئےضروری هے کہ دین کے معاملہ میں فرقہ اهل حدیث کے نام نہاد جاهل شیوخ کی طرف هرگز رجوع واعتماد نہ کرے ، اور یقین کیجیے کہ میں یہ بات کسی ذاتی تعصب وعناد کی بنیاد پرنہیں کہ رها ، بلکہ انتهائ بصیرت وحقیقی مشاهده کی بات کر رها هوں ، 
ان کا جہل وکذب اهل علم پر تو بالکل عیاں هے ، لیکن عام آدمی ان کی ملمع سازی اور وساوس و اکاذیب کی جال میں پهنس جاتا هے ،
ذیل میں فرقہ اهل حدیث کے مشہور وساوس و اکاذیب کا تذکره کروں گا ، تاکہ ایک عام آدمی ان کے وساوس ودجل وفریب سے واقف هوجائے ،

وسـوســه 1 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کی اتباع بہتر هے یا محمد رسول الله کی ؟؟ 
جواب = یہ وسوسہ ایک عام آدمی کو بڑا خوشنما معلوم هوتا هے ، لیکن دراصل یہ وسوسہ بالکل باطل وفاسد هے ، کیونکہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تقابل کرنا هی غلط هے ، بلکہ نبی کا مقابلہ امتی سے کرنا یہ توهین وتنقیص هے ، 
بلکہ اصل سوال یہ هے کہ کیا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ اسلام ) کی راهنمائ میں بہترهے یا اپنے نفس کی خواهشات اور آج کل کے نام نہاد جاهل شیوخ کی اتباع میں بہترهے ؟؟
لہذا هم کہتے هیں کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت واتباع امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله ( اور دیگر ائمہ مجتهدین ) کی اتباع وراهنمائ میں کرنا ضروری هے ، اور اسی پرتمام اهل سنت عوام وخواص سلف وخلف کا اجماع واتفاق هے ، لیکن بدقسمتی سے هندوستان میں انگریزی دور میں ایک جدید فرقہ پیدا کیا گیا جس نے بڑے زور وشور سے یہ نعره لگانا شروع کیا کہ دین میں ان ائمہ مجتهدین خصوصا امام ابوحنیفہ تابعی رحمہ الله کی اتباع وراهنمائ ناجائز وشرک هے ، لہذا ایک عام آدمی کو ان ائمہ اسلام کی اتباع وراهنمائ سے نکال کر ان جہلاء نے اپنی اور نفس وشیطان کی اتباع میں لگادیا ، اور هر کس وناکس کو دین میں آزاد کردیا اور نفسانی وشیطانی خواهشات پرعمل میں لگا دیا ، اور وه حقیقی اهل علم جن کے بارے قرآن نے کہا ( فاسئلوا اهل الذکران کنتم لا تعلمون ) عوام الناس کو ان کی اتباع سے نکال کر ان جاهل لوگوں کی اتباع میں لگا دیا جن کے بارے حضور صلی الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا 
( فأفتوا بغیرعلم فضلوا وأضلوا ) 
اور ان جہلاء کی تقلید واتباع کا صراط مستقیم رکهہ دیا ، اور عام لوگوں کو قرآن وسنت کے نام پراپنی طرف بلاتے هیں ، لیکن درحقیقت عام لوگوں کوچند جہلاء کی اندهی تقلید واتباع میں ڈال دیا جاتا هے ،
فإلى الله المشتكى وهوالمستعان ٠ 



وسـوســه 2 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ؟؟
جواب = یہ وسوسہ بہت پرانا هے جس کو فرقہ اهل حدیث کے جہلاء نقل درنقل چلے آرهے هیں ، اس وسوسہ کا اجمالی جواب تو ( لعنة الله علی الکاذبین ) هے ، اور یہ انهوں نے ( تاریخ ابن خلدون ) کتاب سے لیا هے ، ایک طرف تو اس فرقہ کا دعوی هے کہ همارے اصول صرف قرآن وسنت هیں ، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے اس درجہ بغض هے کہ ان کے خلاف جو بات جہاں سے بهی ملے وه سر آنکهوں پر اس کے لیئے کسی دلیل وثبوت وتحقیق کی کوئ ضرورت نہیں اگرچہ کسى مجہول آدمی کا جهوٹا قول کیوں نہ هو ، 
یہی حال هے ابن خلدون کے نقل کرده اس قول کا هے ، 



تاریخ ابن خلدون میں هے (( فابوحنیفه رضی الله عنه یُقال بلغت روایته الی سبعة عشر حدیثا اونحوها )) 

فرقہ اهل حدیث کے جاهل شیوخ عوام کو گمراه کرنے کے لیئے اس کا ترجمہ کرتے هیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، حالانکہ اس عبارت کا یہ ترجمہ بالکل غلط هے ، بلکہ صحیح ترجمہ یہ هے کہ ابوحنیفہ رضی الله عنه کے متعلق کہا جاتا هے کہ ان کی روایت ( یعنی مَرویات ) ستره ( 17 ) تک پہنچتی هیں ، 

اس قول میں یہ بات نہیں هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو صرف ستره ( 17 ) احادیث یاد تهیں ، تو ابن خلدون کے ذکرکرده اس قول مجہول کا مطلب یہ هے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے جواحادیث روایت کیں هیں ان کی تعداد ستره ( 17 ) هے ، یہ مطلب نہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله نے کُل ستره ( 17 ) احادیث پڑهی هیں ، اور اهل علم جانتے هیں کہ روایت حدیث میں کمی اور قلت کوئ عیب ونقص نہیں هے ، حتی کہ خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی روایات دیگر صحابہ کی نسبت بہت کم هیں ، 

2 = تاریخ ابن خلدون ج ۱ ص ۳۷۱ ) پر جو کچهہ ابن خلدون رحمہ الله نے لکها هے ، وه اگربغور پڑهہ لیا جائے تواس وسوسے اوراعتراض کا حال بالکل واضح هوجاتا هے ۰ 
3 = ابن خلدون رحمہ الله نے یہ قول ( یُقال ) بصیغہ تَمریض ذکرکیا هے ، اور علماء کرام خوب جانتے هیں کہ اهل علم جب کوئ بات ( قیل ، یُقالُ ) سے ذکرکرتے هیں تو وه اس کے ضعف اورعدم ثبوت کی طرف اشاره هوتا هے ،
اور پهر یہ ابن خلدون رحمہ الله کا اپنا قول نہیں هے ، بلکہ مجهول صیغہ سے ذکرکیا هے ، جس کا معنی هے کہ ( کہا جاتا هے ) اب یہ کہنے والا کون هے کہاں هے کس کوکہا هے ؟؟
کوئ پتہ نہیں ، پهر ابن خلدون رحمہ الله نے کہا ( اونَحوِها ) یعنی ان کوخود بهی نہیں معلوم کہ ستره هیں یا زیاده ۰ 
4 = ابن خلدون رحمہ الله مورخ اسلام هیں لیکن ان کو ائمہ کی روایات کا پورا علم نہیں هے ، مثلا وه کہتے هیں کہ امام مالک رحمہ الله کی مَرویّات (موطا ) میں تین سو هیں ، حالانکہ شاه ولی الله رحمہ الله فرماتے هیں کہ (موطا مالک) میں ستره سو بیس ( 1720 ) احادیث موجود هیں ۰ 
5 = اور اس وسوسہ کی تردید کے لیئے امام اعظم رحمہ الله کی پندره مسانید کو هی دیکهہ لینا کافی هے ، جن میں سے چار تو آپ کے شاگردوں نے بلاواسطہ آپ سے احادیث سن کرجمع کی هیں ، باقی بالواسطہ آپ سے روایت کی هیں ،
اس کے علاوه امام محمد امام ابویوسف رحمهما الله کی کتب اور مُصنف عبدالرزاق اور مُصنف ابن ابی شیبہ هزاروں روایات بسند مُتصل امام اعظم رحمہ الله سے روایت کی گئ هیں ، اور امام محمد رحمہ الله نے ( کتاب الآثار ) میں تقریبا نوسو ( 900 ) احادیث جمع کی هیں ، جس کا انتخاب چالیس هزار احادیث سے کیا ۰
6 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ائمہ حدیث نے حُفاظ حدیث میں شمارکیا هے ،
عالم اسلام کے مستند عالم مشہور ناقد حدیث اور علم الرجال کے مستند ومُعتمد عالم علامہ ذهبی رحمہ الله نے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ذکراپنی کتاب ( تذکره الحُفَّاظ ) میں کیا هے ، جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاهر هے کہ اس میں حُفاظ حدیث کا تذکره کیا گیا هے ، اور محدثین کے یہاں ( حافظ ) اس کو کہاجاتا هے جس کو کم ازکم ایک لاکهہ احادیث متن وسند کے ساتهہ یاد هوں اور زیاده کی کوئ حد نہیں هے ، امام ذهبی رحمہ الله تو امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو حُفاظ حدیث میں شمار کریں ، اور انگریزی دور کا نومولود فرقہ اهل حدیث کہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ الله کو ستره احادیث یاد تهیں ، 
( تذکره الحُفَّاظ ) سے امام ابوحنیفہ رحمہ الله کا ترجمہ درج ذیل هے ، 
تذكرة الحفاظ/الطبقة الخامسة
أبو حنيفة
الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي: مولده سنة ثمانين رأى أنس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفة، رواه ابن سعد عن سيف بن جابر أنه سمع أبا حنيفة يقوله. وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الأعرج وعدي بن ثابت وسلمة بن كهيل وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وأبي إسحاق وخلق كثير. تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضي أبو يوسف ومحمد بن الحسن وأسد بن عمرو والحسن بن زياد اللؤلؤي ونوح الجامع وأبو مطيع البلخي وعدة. وكان قد تفقه بحماد بن أبي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وأبو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم وأبو عبد الرحمن المقري وبشر كثير. وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب.
قال ضرار بن صرد: سئل يزيد بن هارون أيما أفقه: الثوري أم أبو حنيفة؟ فقال: أبو حنيفة أفقه وسفيان أحفظ للحديث. وقال ابن المبارك: أبو حنيفة أفقه الناس. وقال الشاقعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفة. وقال يزيد: ما رأيت أحدًا أورع ولا أعقل من أبي حنيفة. وروى أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا. قال أبو داود : إن أبا حنيفة كان إماما.
وروى بشر بن الوليد عن أبي يوسف قال: كنت أمشي مع أبي حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا ينام الليل، فقال: والله لا يتحدث الناس عني بما لم أفعل، فكان يحيي الليل صلاة ودعاء وتضرعا. قلت: مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء. كان موته في رجب سنة خمسين ومائة .
أنبأنا ابن قدامة أخبرنا بن طبرزد أنا أبو غالب بن البناء أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى أنا أبو عبد الرحمن المقرئ عن أبي حنيفة عن عطاء عن جابر أنه رآه يصلي في قميص خفيف ليس عليه إزار ولا رداء قال: ولا أظنه صلى فيه إلا ليرينا أنه لا بأس بالصلاة في الثوب الواحد 





وسوسه 3 = امام ابوحنيفه رحمه الله ضعيف راوى تهے محدثین نے ان پرجرح کی هے ؟؟ 

جواب = دنیائے اسلام کی مستند ائمہ رجال کی صرف دس کتابوں کا نام کروں گا ، جو اس وسوسه کو باطل کرنے کے لیئے کافی هیں ،
1 = امام ذهبی رحمه الله حدیث و رجال کے مسنتد امام هیں ، اپنی کتاب ( تذکرة الحُفاظ ) میں امام اعظم رحمه الله کے صرف حالات ومناقب وفضائل لکهے هیں ، جرح ایک بهی نہیں لکهی ، اور موضوع کتاب کے مطابق مختصر مناقب وفضائل لکهنے کے بعد امام ذهبی رحمه الله نے کہا کہ میں نے امام اعظم رحمه الله کے مناقب میں ایک جدا و مستقل کتاب بهی لکهی هے ۰ 
2 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) میں جرح نقل نہیں کی ، بلکہ حالات ومناقب لکهنے کے بعد اپنے کلام کو اس دعا پرختم کیا ( مناقب أبي حنيفة كثيرة جدا فرضي الله عنه وأسكنه الفردوس آمين 
امام ابوحنيفه رحمه الله کے مناقب کثیر هیں ، ان کے بدلے الله تعالی ان سے راضی هو اور فردوس میں ان کو مقام بخشے ، آمین ، ۰
3 = حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تقريب التهذيب ) میں بهی کوئ جرح نقل نہیں کی ۰ 
4 = رجال ایک بڑے امام حافظ صفی الدین خَزرجی رحمه الله نے ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) میں صرف مناقب وفضائل لکهے هیں ، کوئ جرح ذکرنہیں کی ، اور امام اعظم رحمه الله کو امام العراق وفقیه الامة کے لقب سے یاد کیا ، واضح هو کہ کتاب ( خلاصة تذهيب تهذيب الكمال ) کے مطالب چارمستند کتابوں کے مطالب هیں ، خود خلاصة ، اور 
5 = تذهيب ، امام ذهبی رحمه الله ۰
6 = ألكمال في أسماء الرجال ، امام عبدالغني المَقدسي رحمه الله ۰ 
7 = تهذيب الكمال ، امام ابوالحجاج المِزِّي رحمه الله ۰
کتاب ( ألكمال ) کے بارے میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمه الله نے اپنی کتاب ( تهذیبُ التهذیب ) کے خطبہ میں لکهتے هیں کہ 
كتاب الكمال في أسماء الرجال من أجل المصنفات في معرفة حملة الآثار وضعا وأعظم المؤلفات في بصائر ذوي الألباب وقعا ) اور خطبہ کے آخرمیں کتاب ( ألكمال ) کے مؤلف بارے میں لکها، هو والله لعديم النظير المطلع النحرير ۰ 
8 = کتاب تهذيب الأسماء واللغات ، میں امام نووي رحمه الله سات صفحات امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ، 
9 = کتاب مرآة الجنان ، میں امام یافعی شافعی رحمه الله امام اعظم رحمه الله کے حالات ومناقب میں کوئ جرح نقل نہیں کی ، حالانکہ امام یافعی نے ( تاریخ بغداد ) کے کئ حوالے دیئے هیں ، جس سے صاف واضح هے کہ خطیب بغدادی کی منقولہ جرح امام یافعی کی نظرمیں ثابت نہیں ۰ 
10 = فقيه إبن العماد ألحنبلي رحمه الله اپنی کتاب شذرات الذهب میں صرف حالات ومناقب هی لکهے هیں ،جرح کا ایک لفظ بهی نقل نہیں کیا ۰ 
اسی طرح اصول حدیث کی مستند کتب میں علماء امت نے یہ واضح تصریح کی هے ، کہ جن ائمہ کی عدالت وثقاهت وجلالت قدر اهل علم اور اهل نقل کے نزدیک ثابت هے ، ان کے مقابلے میں کوئ جرح مقبول و مسموع نہیں هے ،
وسوسه 4 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله مُحدث نہیں تهے ، ان کو علم حدیث میں کوئ تبحر حاصل نہیں تها ؟؟ 
جواب = یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جہلاء آج تک نقل کرتے چلے آرهے هیں ، اهل علم کے نزدیک تو یہ وسوسہ تارعنکبوت سے زیاده کمزور هے ، اور دن دیہاڑے چڑتے سورج کا انکار هے ، اور روشن سورج اپنے وجود میں دلیل کا محتاج نہیں هے ، اور چمگادڑ کو اگرسورج نظرنہیں آتا تواس میں سورج کا کیا قصور هے ؟ بطور مثال امام اعظم رحمہ الله کی حلقہ درس میں برسہا برس شامل هونے والے چند جلیل القدر عظیم المرتبت محدثین وائمہ اسلام کے اسماء گرامی پیش کرتا هوں ، جن میں هرایک اپنی ذات میں ایک انجمن اور علم وحکمت کا سمندر هے ، 
1 = امام یحی ابن سعید القطان ، علم الجرح والتعدیل کے بانی اور امام هیں 
2 = امام عبدالرزاق بن همام ، جن کی کتاب ( مُصَنَّف ) مشہورومعروف هے ، جن کی جامع کبیر سے امام بخاری نے فیض اٹهایا هے 
3 = امام یزید ابن هارون ، امام احمد بن حنبل کے استاذ هیں 
4 = امام وکیع ابن جَرَّاح ، جن کے بارے امام احمد فرمایا کرتے کہ حفظ واسناد و روایت میں ان کا کوئ هم سر نہیں هے 
5 = امام عبدالله بن مبارک ، جو علم حدیث میں بالاتفاق امیرالمومنین هیں 
6 = امام یحی بن زکریا بن ابی زائده ، امام بخاری کے استاذ علی بن المَدینی ان کو علم کی انتہاء کہا کرتے تهے 
7 = قاضی امام ابویوسف ، جن کے بارے امام احمد نے فرمایا کہ میں جب علم حدیث کی تحصیل شروع کی تو سب سے پہلے قاضی امام ابویوسف کی مجلس میں بیٹها ،
8 = امام محمد بن حسن الشیبانی جن کے بارے امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے ایک اونٹ کے بوجهہ کے برابرعلم حاصل کیا هے ، 
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب ( تهذيب التهذيب ج 1 ص 449 ) میں امام اعظم کے تلامذه کا ذکرکرتے هوئے درج ذیل مشاهیر ائمہ حدیث کا ذکرکیا 
تهذيب التهذيب​ ، حرف النون
وعنه ابنه حماد وإبراهيم بن طهمان وحمزة بن حبيب الزيات وزفر بن الهذيل وأبو يوسف القاضي وأبو يحيى الحماني وعيسى بن يونس ووكيع ويزيد بن زريع وأسد بن عمرو البجلي وحكام بن يعلى بن سلم الرازي وخارجة بن مصعب وعبد المجيد بن أبي رواد وعلي بن مسهر ومحمد بن بشر العبدي وعبد الرزاق ومحمد بن الحسن الشيباني ومصعب بن المقدام ويحيى بن يمان وأبو عصمة نوح بن أبي مريم وأبو عبد الرحمن المقري وأبو عاصم وآخرون ،
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ( وآخرون ) کہ کراشاره کردیا کہ امام اعظم کے شاگردوں میں صرف یہ کبارائمہ هی شامل نہیں بلکہ ان کے علاوه اور بهی هیں ،
اوران میں اکثرامام بخاری کے استاذ یا استاذ الاساتذه هیں ،
یہ ایک مختصرسی شہادت میں نے حدیث ورجال کے مستند امام حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی کی زبانی آپ کے سامنے پیش کی هے ، تو پهربهی کوئ جاهل امام اعظم کے بارے یہ کہے کہ ان کو حدیث کا علم حاصل نہیں تها ، کیا یہ جلیل القدرمحدثین اورائمہ امام اعظم کی درس میں محض گپ شپ اورهوا خوری کے لیئے جایا کرتے تهے ؟؟ 
کیا ایک عقل مند آدمی ان ائمہ حدیث اور سلف صالحین کی تصریحات کوصحیح اور حق تسلیم کرے گا یا انگریزی دور میں پیدا شده جدید فرقہ اهل حدیث کے وساوس واباطیل کو ؟؟

وسوسه 5 = امام ابوحنیفہ رحمہ الله تابعی نہیں تهے ؟؟ 

جواب = یہ باطل وسوسہ بهی فرقہ اهل حدیث کے جهلاء نےامام اعظم کے ساتهہ بغض وعناد کی بناء پر مشہورکیا ، جبکہ اهل علم کے نزدیک یہ وسوسہ بهی باطل وکاذب هے ، 
یاد رکهیں کہ جمہور محدثین کے نزدیک محض کسی صحابی کی ملاقات اور رویت سے آدمی تابعی بن جاتا هے ، اس میں صحابی کی صحبت میں ایک مدت تک بیٹهنا شرط نہیں هے ، 
حافظ ابن حجر رحمہ الله نے (شرح النخبه ) میں فرمایا ( هذا هوالمختار ) یہی بات صحیح ومختارهے ۰ 
امام اعظم رحمہ الله کو بعض صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل هوا هے ، 
اور امام اعظم رحمہ الله کا حضرت انس رضی الله عنہ سے ملاقات کو اور آپ کی تابعی هونے کو محدثین اور اهل علم کی ایک بڑی جماعت نے نقل کیا هے
1 = ابن سعد نے اپنی کتاب ( الطبقات ) میں، 2 = حافظ ذهبی نے اپنی کتاب (تذکره الحُفاظ ) میں ، 3 = حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب ( تهذیب التهذیب ) میں اور اسی طرح ایک فتوی میں بهی جس کو امام سیوطی نے ( تبییض الصحیفه ) میں نقل کیا هے ، 4 = حافظ عراقی ، 5 امام دارقطنی ، 6 = امام ابومعشرعبدالکریم بن عبدالصمد الطبری المقری الشافعی ، 7 = امام سیوطی ، 8 = حافظ ابوالحجاج المِزِّی ، 9 = حافظ ابن الجوزی ، 10 = حافظ ابن عبدالبر ،
11 = حافظ السمعانی ، 12 = امام نووی ، 13 = حافظ عبدالغنی المقدسی ، 
14 = امام جزری ، 15 = امام تُوربِشتی ، 16 = امام سراج الدین عمربن رسلان البُلقینی ، اپنے زمانہ کے شیخ الاسلام هیں اور حافظ ابن حجر کے شیخ هیں ،
17 = امام یافعی شافعی ، 18 = علامہ ابن حجرمکی شافعی ، 19 = علامہ احمد قسطلانی ، 20 = علامہ بدرالدین العینی ، وغیرهم رحمهم الله تعالی اجمعین 
بطورمثال اهل سنت والجماعت کے چند مستند ومعتمد ائمہ کے نام میں نے ذکرکیئے هیں ، ان سب جلیل القدر ائمہ کرام نے امام اعظم رحمہ الله کو تابعی قراردیا هے ، اب ان حضرات ائمہ کی بات حق وسچ هے یا انگریزی فرقہ اهل حدیث میں شامل جهلاء کا وسوسہ اور جهوٹ ؟ 

تحریر: ایم حافظ خان

Tuesday 4 December 2012


تحفۃ الغیر مقلدین۔!!!



molana ameen safdar okarvi.sereis:4.part:1 by khudam-e-ehlesunnat

Monday 19 November 2012

غیر مقلدین کے غیر مقلد سوالات اور انکے جوابات




سوال نمبر1: تقلید شخصی اصطلاحی کی تعریف کیا ہے۔ اور یہ فرض ہے، واجب ہے، مستحب ہے یا مباح ہے؟

الجواب: تقلید کی تعریف: کسی کا قول اس لئے ماننا کہ آپ کو یقین ہو کہ وہ شخص کتاب و سنت کے موافق بتلائے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔ یہ تقلید کا شرعی معنی ہے، اب تقلید کے مطابق کسی راوی کی روایت کو قبول کر لینا تقلید فی الروایت، اور کسی مجتھد کی درایت کو قبول کرنا تقلید فی الدرایت ہے۔ 

کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو صحیح یا ضعیف کہنا بھی تقلید ہے، اور ثقہ یا مجہول کہنا بھی تقلید۔ 

اسی طرح کسی امتی کے بنائے گئے اصول حدیث و اصول تفسیر و اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید کہلاتا ہے۔ 

اب بات یہ کہ کیا تقلید واجب ہے؟ تقلید واجب ہے جب خود عقل نہ ہو، حدیث اور قران کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو، ساتھ ہی اتنی بصیرت نہ ہو کہ کسی غیر منصوص مسئلہ کے مطلب کو صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔ یہ کام فقہا کا ہے کہ انہوں نے احادیث طیبہ سے وہ مسائل نکالے جو ہماری سوچ میں کبھی نہیں سما سکتے تھے۔ اس لئے ہر انسان جو غیر مجتہد ہو اس پر تقلید واجب ہے، اس کی عام مثال دی جاتی ہے کہ جو خود ڈاکٹر نہ ہو وہ کسی اچھے اور جانے مانے ڈاکٹر سے ہی دوا لے گا، کسی لا علم سے ہرگز نہیں اور اسی طرح نہ ہی اس ڈاکٹر کے دئے گئے نسخے کو جا کر علمِ طب کی کتب میں تصدیق کرے گا اور پھر کھائے گا۔ بلکہ وہ اسی بھروسے پر اس دوا کو استعمال کرے گا کہ اس ڈاکٹر (جو سب مریضوں اور تجربہ کاروں کے مطابق اچھا اور مستند مانا ہوا ہے) نے اسے صحیح دوا تجویز کی ہے۔ اور انشا اللہ شفایاب بھی ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تقلید اس ڈاکٹر کی واجب ہے۔ ہم بھی بیمار ہیں، اور جانتے ہیں کہ جب تک کوئی بڑا طبیب علاج کے لئے میسر نہ آئے ہمارے مرض کا درماں ممکن نہیں، اس لئے فقیہہ امام کی تقلید ضروری ہے ورنہ کیا ہوتا ہے؟ 

ورنہ یہ ہوتا ہے کہ میں محدث ہی کیوں نہ ہوجاؤں مگر فقہ سے نا واقف ہوں تو حدیث کا سمجھنے سے قاصر رہ سکتا ہوں جیسے ایک غیر فقیہہ محدث چالیس سال تک یہ نظریہ اپنائے رکھا کہ نماز جمعہ سے پہلے سر منڈوانا درست نہیں اور حدیث کیا تھی؟ ”نَھٰی عَنِ الحَلَقِ قَبلَ الصَّلٰوۃِ یَومُ الجُمُعَہ“ 

یہی حال ہوتا ہے جب تقلید نہیں ہوتی، اپنی عقل چلتی ہے، پیروی چھوٹ جاتی ہے، گمراہی آجاتی ہے۔ 

مقلد اپنے آپ کو مقلد کہتا ہے اس لئے نہیں کہ وہ قران اور حدیث کے خلاف ہے، بلکہ وہ ایسے شخص کا مقلد ہے جو قران اور حدیث کو اس مقلد اور ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں سے زیادہ سمجھتا ہے اور جو وہ سمجھاتا ہے مقلد اسکی بات کو مان لیتا ہے۔ لیکن یہ کہاں ہے کہ مقلد حدیث کو نہیں بلکہ امام کو مانتا ہے؟ یہ ایسی ہی بات ہے کہ میں سائنس کہ ٹیچر کی بات سنوں تو مجھ پر طعن ہو کہ تم سائنس کی ٹیکسٹ بک کو چھوڑ کر ٹیچر کی بات مانتے ہو۔ اور یہ غلط ہے، مگر میں کیا کروں کہ مجھے اس ٹیکسٹ بک کی سمجھ نہیں آتی مگر ٹیچر اسی ٹیکسٹ بک میں سے وہ کچھ سمجھا دیتا ہے جو میرے وہم و گمان تک میں نہ تھا۔۔۔۔ تو ٹیچر کی تقلید واجب ہے مجھ پر۔ 

غیر مقلدین کے شیخ الکل حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ فرماتے ہیں: 

”تقلید کا اصطلاحی معنی یہ ہیں کہ ماننا اور عمل کرنا اس شخص کے قول پر بلا دلیل جس کا قول حجت شرعی نہ ہو، تو اس اصطلاح کی بنیاد پر عامی کا مجتھدوں کی طرف رجوع کرنا کوئی تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ تقلید کے معنی عرف میں یہ ہیں کہ وقت لا علمی میں میں کسی اہل علم کا قول اور اس پر عمل کرنا اور اسی عرفی معنی میں مجتہدوں کی ”اتباع“ کو تقلید کہا جاتا ہے“ 

گویا اتباع ہی تقلید ہے اور تقلید کا معنی ہی اتباع کرنا ہے۔ (معیار الحق) 

آگے عقیدۃ الفرید کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: 

اور فاضل حبیب اللہ قندھاری ؒ فرماتے ہیں: 

تقلید اس شخص کے قول پر بلا دلیل عمل کرنا ہے جس کا قول حجت شرعیہ نہ ہو سو رجوع کرنا آنحضرت ﷺ کی اور اجماع کی طرف تقلید نہیں کہلائے گا۔ اور اسی طرح کسی انجان کا مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا یا کسی قاضی کا ثقہ آدمی کے قول کی طرف رجوع کرنا بھی تقلید نہیں کہلائے گا کیونکہ یہ تو بحکم شرع واجب ہے۔ اب اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب یہ چیز واجب ہے تو اتباع کو اگر تقلید کا نام دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں (بحوالہ ایضاً امام الحرمین) 

اس مفصل عبارت سے ثابت ہوا: 

۱۔ لا علمی کے وقت مجتہد کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ اتباع ہے۔ 

۲۔ مجتہدین کی اتباع کو تقلید بھی کہا جاتا ہے یعنی بالمآل تقلید اور اتباع میں کوئی فرق نہیں 

۳۔ لا علم اور انجان کا کسی مفتی کے قول کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں بلکہ بحکم شرع واجب ہے 

۴۔ جس طرح مجتہدین کے اتباع کو تقلید کہنا جائز ہے اسی طرح رسولﷺ کی اتباع کو بھی تقلید کہنا جائز ہے۔ 



امید ہے کہ سمجھ آیا ہو کچھ 



سوال نمبر2: اجماع کی تعریف کیا ہے۔ اور اجماع کن لوگوں کا معتبر ہے؟ تقلید شخصی اصطلاحی پر کیا اجماع ہوا ہے۔ اگر ہوا ہے تو کب، کہاں اور کن کا؟
الجواب: اجماع کی تعریف مختصر یہ کہ جس چیز پر امت کا اکثر یہ بہت زیادہ حصہ جمع ہوجاوے، اس سے سیدھی سی بات یہ مراد ہے کے امت مسلمہ ایک وقت میں غلط بات یا کسی غلط مسئلے پر جمع نہیں ہوسکتی۔ مثلاً ایک ہی وقت میں پوری امت بیس تراویح پر جمع ہوئی اور صدیوں جمع ہی رہی بلکہ آج تک جمع ہے یہ اجماع ہے۔ اس میں معتبر ہونا کسی ایک زمانے یا کسی ایک طرح کے لوگوں کو شرط نہیں بنایا جاسکتا معتبر ہونے کے لئے۔ مثلاً پہلے بھی سب بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے، آج بھی امت کا اجماع اسی پر ہے۔ (کوئی ایک جماعت اپنی ڈیڑھ اینٹ کی چن کر بیٹھ جائے تو وہ اجماع امت میں نہیں آتی اور انشا اللہ کبھی آئے گی بھی نہیں۔) مولانا فضل محمد صاحب دامت برکاتہم بنوری ٹاؤن کے۔ میرے ساتھ عشائیہ تناول فرما رہے تھے۔ کہنے لگے کہ مزمل بیٹا ”کتیا ایک ساتھ آٹھ بچے دیتی ہے۔ اور بکری دو ہی بچے دیتی ہے۔ لیکن ہر کوئی دیکھ سکتا ہے کہ حرام کبھی پنپ نہیں سکتا اور کتیا کے بچے کوئی کھاتا بھی نہیں پھر بھی بکری کے بچوں کی تعداد آپ خود سمجھ سکتے ہیں“ ۔ اسی طرح ایک وقت میں اجماع امت کسی غلط بات پر ممکن نہیں اور اجماع امت حق والوں کے لئے ایک مضبوط سے مضبوط دلیل بھی ہے۔ 

تقلید شخصی پر آئیں تو پتا لگتا ہے کہ ہر دور میں تقلید ہوئی، صحابہ میں بھی تقلید شخصی کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے قرۃ العین میں لکھا ہے۔ پھر یہ بھی کہ سب صحابہ میں کوئی ایک بھی غیر مقلد نہیں تھا۔ یا تو مجتھد تھے یا مقلد۔ صحابہ کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ رہی مگر فقیہ صحابہؓ جن کی تقلید الگ الگ جگہوں پر ہوتی وہ مفتی صحابہؓ کل 149 تھے اور ان میں مکثرین کی تعداد سات ہے جنہوں نے بہت زیادہ تعداد میں فتوے دئے، بیس متوسطین تھے جنہوں نے کئی ایک فتوے دئے، اور ایک سو بائیس مقلین یعنی ایسے ہیں جنہوں نے بہت کم تعداد میں فتوے دئے۔ ان مفتی صحابہ کرام ؓ کے ہزاروں فتوے مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہین جن میں ان مفتیان کرام نے صرف مسئلہ بتایا ہے دلیل میں کسی حدیث یا آیت کو نہ تو طلب کیا گیا اور نہ ہی پیش کیا گیا اور انہی فتاوی پر مقلد صحابہؓ عمل کیا۔ اسی کو تقلید کہا جاتا ہے۔ شاہ ولی اللہ ؒ الانصاف میں فرماتے ہیں ”صحابہؓ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہر علاقے میں ایک صحابی کی تقلید شخصی کی جاتی۔ “ 

جیسے مکہ میں ابن عباسؓ، مدینہ میں زید بن ثابت ؓ کوفہ میں عبد اللہ بن مسعودؓ یمن میں معاذ ؓ بصرہ میں انس ؓ ۔ پھر شاہ ولی اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ تابعین کے دور میں ہر تابعی کا ایک مذہب قرار پایا اور ہر شہر میں ایک امام ہو گیا، لوگ اسکی تقلید کیا کرتے۔ الغرض یہ کہ تقلید صحابہؓ اور تابعینؒ کے دور سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔ اب مسئلہ یہ کہ ان صحابہ و تابعین فقہا کی مرتب کردہ کتابیں ہم میں موجود نہیں لیکن پھر ائمہ اربعہ نے انکے مذہب کو جمع کرکے مرتب کردیا اور انہی ائمہ اربعہ کے واسطے سے ان سب فقہا کی تقلید آج تک ہوتی آرہی ہے یہی اجماع امت ہے جو دور صحابہ سے لیکر آج تک چلتا چلا آرہا ہے۔ 




سوال نمبر3: اجتہاد کی تعریف کیا ہے۔ اجتہاد کے لیے کن علوم کی ضرورت ہے اور کیوں۔ کیا اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔ اگر نہیں تو پہلے کیوں کھلا تھا اور کس نے کھولا تھا۔ اب کیوں بند ہو گیا ہے۔ اور کس نے بند کیا ہے؟
الجواب: اجتہاد کو اختصار کے ساتھ یوں کہوں کہ جو مسئلہ کتاب اللہ اور سنت سے واضح طور پر ثابت نہ ہو یعنی غیر منصوص ہو تو ایسے مسائل کو اجتہاد سے حل کیا جاتا ہے۔ سوچیں اگر انسان، حیوان، جنات، پیشاب، پاخانہ، پھر ان سے متعلق شاخیں، پھر ان شاخوں کی شاخیں، پھر شاخوں کی شاخوں کی شاخیں سب کچھ اگر قران کریم اور احادیث میں صراحتاً ثابت ہوتا تو احادیث کی تعداد اربوں یا کھربوں میں ہوتی۔ 

کتاب و سنت ضابطہ حیات ہیں اس پر امت کا اجماع ہے اور ہر کوئی مانتا ہے۔ اب ضابطہ کیا ہوتا ہے؟ ضابطہ ایک حد ہوتی ہے جس سے باہر نکلنا ضابطہ کے خلاف ہے۔ 

اس صورت میں اگر ایک مجتہد یا ایک فقیہہ قیاس کر کے کے کوئی مسئلہ نکالے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ قران و سنت (یعنی ضابطہ حیات) سے ہٹ گیا اور قیاس کرکے مسئلہ ایجاد کرلیا۔ 

مجتہد ہونے کی شرائط علی بن محمد البزدوی الحنفی ؒ فرماتے ہیں مختصر بیان کر دیتا ہوں: 

”اجتہاد کی شرط یہ ہے کہ مجتہد کتاب اللہ کی معانی اور حدیث کی اسانید اور متون اور ان کی معانی کے طریقوں کے علم پر حاوی ہو اور یہ کہ قیاس اور اس کے طرق کو بھی جانتا ہو“ 

یعنی مجتہد کے لئے یہ بنیادی شرط ہے کہ کتاب اللہ کی معانی پر عبور رکھتا ہو اور حدیث کی اسانید اور اسکے متون پر بھی اس کا علم حاوی ہو اور اخذ معانی مثلاً عبارۃ النص، اشارۃ النص، دلالۃ النص، اور اقتضاء النص وغیرہ کے وجوہ کو بھی بخوبی جانتا ہو۔ ظاہر امر ہے کہ جس نے نہ تو کسی ماہر استاد سے قران کریم کے با قاعدہ معانی پڑھے، نہ علوم آلیہ سے شناسائی حاصل کی نہ حدیث کی سند اور معانی کو پڑھا اور نہ اصول تفسیر اور اسول حدیث سے واقفیت حاصل کی ہو، نہ اصول فقہ و قیاس کے وجوہ کو پڑھا ہو صرف کچھ ترجموں کو پڑھ کر بیٹھ گیا ہو وہ مجتہد کیسے بن سکتا ہے؟ تو واضح ہوا کہ مجتہد بننا ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے بس کی بات نہیں۔ 

اجتہاد کا دروازہ بند ہوا یا کھلا ہے؟ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ ”۳۰۰ ہجری کے بعد کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوا“ اور امام نووی نے بھی شرح مہذب میں یہی فرمایا کہ اب مجتہد کا آنا نہ تو محال عقلی ہے، نہ شرعی مگر محال مادی ہے، سوچیں اگر آج کوئی مجتہد پیدا ہوا تو آکر کرے گا کیا؟؟؟ اگر آج کا کوئی محدث دعوی کرے کے ساری حدیث کی کتابیں جیسے بخاری و مسلم اور دیگر کتابیں سب غلط ہیں اور محدثین کی عظمت کو ختم کردے تو اس سے دین کو کیا فائدہ ہوگا؟ 

اسی طرح کوئی مجتہد بن کر سارے علمی سرمائے کو ختم کر ڈالے تو اس سے کیا حاصل ہوگا؟ 





سوال نمبر4: مجتہد کو بھی تقلید کرنے کا حکم ہے یا نہیں؟ 

الجواب: یہ تو ایسا سوال ہوا کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں امام بھی ہو اور مقتدی بھی۔ ظاہر ہے کہ یہ امر محال ہے۔ ایک نماز پڑھانے والا ہوتا ہے جو امام ہوتا ہے۔ اور اس پر مقتدی کی چھاپ نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ وہ تو امامت کر ہی رہا ہے۔ یا تو وہ امامت چھوڑ کر اقتدا اپنا لے تو مقتدی ہوجائے گا۔ اور بہر حال یہ سوال تھوڑا دجل و فریب سے پر ہے تو میں مناسب سمجھونگا کہ یہ بتاؤں کہ امام اپنی نماز اپنی مرضی سے نہیں بلکہ سنت کے طریق پر پڑھاتا ہے۔ اسی طرح مجتہد اجتہاد میں اپنی نہیں کرتا بلکہ وہی کرتا ہے جو یا تو کتاب و سنت سے ثابت ہو، اگر ثابت نہ ہو تو خلاف بھی نہ ہو۔ حقیقت میں مجتہد بھی قران و سنت اور اجماع کا تابع ہے اس سے ہٹ کر کچھ نہیں کہتا۔ 




سوال نمبر5: جو امام ان چاروں کے سوا ہوئے ہیں ان کے نام کیا ہیں۔ اور ان کی تقلید فرض ہے یا واجب یا مباح ہے یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیوں۔ حالانکہ وہ ان کے استاد ہیں، ادب میں، زہد میں، فقہ میں، جہاد میں، تقوی میں ان کے بھی بڑے ہیں۔ ان کی بزرگی کے قائل تھے اور ان کا ادب کرتے تھے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقلید نہ کر کے نیچے والوں کی تقلید کرنا کونسی عقل مندی ہے؟
الجواب: اس کا جواب سوال نمبر ۲ کی آخری عبارت میں دے چکا ہوں کہ چار اماموں میں کوئی بھی کتاب و سنت اور اجماع کے خلاف نہیں گیا۔ اور ان سے پہلے جو علماء و فقہا صحابہؓ و تابعینؒ گذرے انہی کی تحقیقات کو جمع کیا اور چونکہ یہ چار خود بھی اجماع امت سے ثابت شدہ مجتہدین تھے تو اجتہاد سے بھی کام لیا۔ عقل مندی کی بات تو یہ ہے کہ اطیع اللہ و اطیع الرسول پر عمل کیا جائے تو تمام احادیث چاہے ضعیف ہوں یا صحیح سب پر عمل کر لیا جائے، کسی ایک کو بھی نہ چھوڑا جائے، لیکن ہم اس معاملے میں صحابہ کی نہیں بلکہ بعد کے محدثین کی رائے لیکر راویوں کو ثقہ و مجھول ٹھہرا دیتے ہیں۔ امام بخاری کی حدیث کو تو قران کے بعد پہلے درجے کا مانتے ہیں مگر امام احمد بن حنبلؒ جو امام بخاریؒ کے استاد وں میں سے ایک ہیں انکی حدیث کو نسبتاً کم درجہ دیتے ہیں۔ یہ کونسی عقل مندی ہے؟ کیا صحابہ بخاری و مسلم شریف پر عمل کرتے تھے؟ یا صرف حدیث پر؟