This is default featured slide 1 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 2 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 3 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 4 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

This is default featured slide 5 title

Go to Blogger edit html and find these sentences.Now replace these sentences with your own descriptions.

Saturday, 26 January 2013

تقلید کی حقیقت۔ از: مفتی عابد

تقلید کےلغوی معنی

تقلید کےمعنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔

تقلید کےاصطلاحی معنی

اصولین کے نزدیک تقلید کے اصطلاحی معنی : (قول مجتہد کو بغیر دلیل قطعی ومعرفت تامہ کے بعینہ قبول کرلینا (بوجہ اعتماد کلی کے)

اور التقلید: ھول العمل الغیر من غیر حجۃ ملزمۃ ( بغیر کسی لازمی حجت کے دوسرے کوے عمل کو قبول کرنا)

اور جناب قاضی محمدعلی صاحب فرماتے ہیں:

"التقلید اتباع الانسان غیرہ فیما یقول او یفعل معتقدا للحقیقة من غیر نظر الی الدلیل"۔ (کشف اصطلاحات الفنون:۱۱۷۸)

ترجمہ: تقلید کے معنی ہیں کسی آدمی کا کسی دوسرے کے قول و فعل میں دلیل طلب کئے بغیر اس کو حق سمجھتے ہوئے اتباع کرے۔

جائز و ناجائز اتباع و تقلید

تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفار و مشرکین، خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی مخالفت کے لئے اپنےآباء واجداداور پیشواؤںکی تقلید کرتے تھے۔ اگر حق پر عمل کرنے کے لئےوہ اس وجہ سے تقلید کرتا ہےکہ وہ مسائل کا براہ راست استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کیونکہ کتاب و سنت کواسسے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلئے اگر اسکو اللہ ا و رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔

علامہ خطیب بغدادی شافعی (٣٩٢-٤٦٢ھ) فرماتے ہیں:

احکام کی دو قسمیں ہیں: عقلی اور شرعی۔

عقلی احکام (ایمانیات یا عقائد)میں تقلید جائز نہیں، جیسے ایمان باللہ ،صانع عالم (جہاں کا بنانےوالا) اور اس کی جملہ صفات (خوبیوں) کی معرفت (پہچان)اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھرانا، اللہ کو عالم الغیب جاننا، حیات ممات میں اللہ کی قدرت کاملہ کا اقرارکرنا اقرا ربالسان اور تصدیق بالقلب کے ساتھ، اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تصدیق اور آپ کے برحق ہونےکی معرفت وغیرہ

عبید الله بن حسن عنبری سے منقول ہے کہ وہ اصول دین میں بھی تقلید کو جائز کہتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے اس لئے کہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تمہارے رب کی طرف سے جو وحی آئی اسی پر عمل کرو، اس کے علاوہ دوسرے اولیاء کی اتباع نہ کرو، کس قدر کم تم لوگ نصیحت حاصل کرتے ہو" (٧:٣)۔

اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الله کی اتاری ہوئی کتاب کی اتباع کرو تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ نہیں، ہم اس چیز کی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادہ کو پایا، چاہے ان کے باپ دادا بے عقل اور بے ہدایت ہوں" (٢:١٧٠)

اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ"ٹھہرالیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا (یعنی الله کے واضح احکام حلال و حرام کے خلاف ان کو حاکم (حکم دینے والا) اللہ کو چھوڑ کر)... "(٩:٣١)

دوسری قسم: احکام شرعیہ کی ہے، اور ان کی دو قسمیں ہیں:

(۱) دین کے وہ احکام جو وضاحت و صراحت سے معلوم ہوں، جیسے زنا و شراب کی حرمت ہونا وغیرہ تو ان میں تقلید جائز نہیں ہے کیونکہ ان کے جاننے میں سارے لوگ برابر ہیں،

(۲)دین کے وہ احکام جن کو نظر و استدلال کے بغیر نہیں جانا جاسکتا، جیسے: عبادات، معاملات، نکاح وغیرہ کے "فروعی" مسائل، تو ان میں تقلید کرنی ہے۔

وہ لوگ جن کو تقلید کرنی ہے (یہ) وہ حضرات ہیں جن کو احکام شرعیہ کے استنباط کے طریقے معلوم نہیں ہیں، تو ان کے لئے "کسی" عالم کی تقلید اور اس کے قول پر عمل کے بغیر چارہ کارنہیں ہے

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
" فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:۴۳والانبیا:۷)

پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے"۔

یہ آیت شریفہ گو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی مگر قاعدہ ہے

العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب (لفظ کے عموم کا اعتبار ہوگا نہ کہ شان نزول کا سبب) اسلئے یہاں ’’ اہل الذکر‘‘ بوجہ عموم مسلمان بھی شامل ہیں،وہ کیسے،لیجئے

وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلہم یتفکرون (نحل :۴۴) یہ ذکر(کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے ،لوگوں کی جانب نازل فرمایا ہے ،آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ،شاید کہ لوگ غور و فکر کریں۔

یہاں ذکر سے مراد قرآن شریف ہے ۔اس لئے اہل ذکر میں مسلمان آتے ہیں۔

اور بحوالہ حدیث شریف:

(ترجمہ حدیث)حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں زخمی ہوگیا پھر انھیں غسل کی حاجت ہوگئی، "لوگوں" نے انھیں غسل کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوگئی. اس کی اطلاع نبی صلے الله علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ نے فرمایا: الله ان کو قتل (برباد) کرے کہ ان لوگوں نے اس کو قتل کردیا. ، ناواقفیت کا علاج (اہل علم سے) دریافت کرنا نہ تھا؟...الخ (سنن أبي داود كتاب الطهارة ، باب فی المجروح يتيم) (رقم الحديث: ۲۸۴:۳۳۶)

ان نصوص سے مقلد کے لئے مجتہد کی تقلید کرنا ثابت ہے۔دوسری دلیل یہ ہے کہ اگر کوئی اہل اجتہاد میں سے نہیں ہے تو اس پر تقلید ہی فرض ہے. جیسا کہ نابینا، کہ اسکے پاس ذریعہ علم نہیں ہے تواس کو قبلہ کے سلسلے میں کسی دیکھنے والے(بینا) کی بات ماننی ہوگی.وقس علیٰ ھٰذا، اور مجتہد کیونکہ علوم شرعیہ سے بخوبی واقف ہوتا ہے اس لئے اس کو کسی تقلید کرنا لازم نہیں۔اور اس طرح کی تقلید شخصیت پرست نہیں بلکہ احکام شرعیہ اور معرفت الٰہیہ کے معلوم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔اور اگر کوئی کسی کی ذاتی طور پر تقلید کرتا ہے تو حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

اس تقلید کا حکم دیتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَاايّهَا الَذِينَ آمَنُوا اَطِيعُوا اللّهَ وَاَطِيعُوا الرّسُولَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ"۔ (النساء:۵۹)

ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) کی اطاعت کرو اور تم میں جوصاحب امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔

اس آیتِ کریمہ میں اللہ اور اس کے رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد "أُولِي الْأَمْرِ " کی اتباع کا حکم فرمایا گیا ہے "أُولِي الْأَمْرِ" سے کون لوگ مراد ہیں؛ اگرچہ اس میں علماء کی رائیں مختلف ہیں؛ لیکن اکثرمفسرین اس سے فقہاء اور علماء مراد لیتے ہیں، حاکم نے حضرت عبداللہ ابن جابر کا قول نقل کیا ہے:

"اُولِي الْامْرِ، قال الفقہ والخیر"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)

ترجمہ: "اُولِي الْاَمْرِ" سے مراد اصحابِ فقہ وخیر ہیں۔

ترجمان القرآن میں حضرت ابن عباسؓ کی بھی یہی تفسیر نقل کی گئی ہے:"اُولِي الْامْرِ، یعنی اهل الفقه والدین"۔ (مستدرک:۱/۱۲۳)

ترجمہ: "اُولِي الْامْرِ" سے اصحاب فقہ اور اہلِ دین مراد ہیں۔

فَان تَنٰزَعتُم فى شَيءٍ فَرُدّوهُ اِلَى اللہ وَالرّسولِ ان كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللہ وَاليَوم الاخر ذٰلِكَ خَيرٌ وَاحسَنُ تَاويلًا

پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ طرف اللہ کے اور رسول کے اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ بات اچھی ہے اور بہت بہتر ہے اس کا انجام.

مفسر امام ابو بکر جصاص رح نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہیں کہ:

"’اولو الامر" ،‘کی اطاعت دینے کے فورا بعد الله تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف" یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اولو الامر سے مراد "علماء و فقہاء" ہیں، کیونکہ الله تعا لیٰ نے لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیا (یعنی جس بات پر ان کا اتفاق و اجماع جو وہ بھی قرآن و سنّت کےبعد قطعی دلیل و حکم ہے)، "پھر اگر جھگڑ پڑو کسی چیز میں" فرماکر اولو الامر (علماء) کو حکم دیا کہ جس معاملہ میں ان کے درمیاں اختلاف ہو اسے الله کی کتاب اور نبی کی سنّت کی طرف لوتادو، یہ حکم"علماء و فقہاء" ہی کو ہو سکتا ہے، کیونکہ عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اس بات س واقف نہیں ہوتے کہ کتاب الله و سنّت کی طرف کسی معاملہ کو لوٹانے کا کیا طریقہ ہے اور نہ انھیں نت نئے مسائل (کا حل قرآن و سنّت سے اجتہاد کرتے) مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے، لہذا ثابت ہوگیا کہ یہ خطاب علماء و فقہاء کو ہے. [ احکام القرآن (۲:۲۵۷)

فَسـَٔلوا أَهلَ الذِّكرِ إِن كُنتُم لا تَعلَمونَ (النحل:٤٣)

پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے.

اس آیت میں یہ اصولی ہدایت دیدی گئی ہے کہ جو لوگ کسی علم و فن کے ماہر نہ ہوں، انھیں چاہیے کہ اس علم و فن کے ماہرین سے پوچھ پوچھ کر عمل کرلیا کریں، یہی چیز تقلید کہلاتی ہے چناچہ علامہ آلوسی بغدادی (الحنفی) اس طرح فرماتے ہیں: اور اس آیت میں اس بات پر بھی استدلال کیا گیا ہے کہ جس چیز کا علم اسے خود نہ ہو اس میں علماء سے رجوع کرنا واجب ہے. اور علامہ جلال الدین السیوطی (الشافعی) ’’اقلیل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ عام آدمیوں کے لئے فروعی مسائل میں تقلید جائز ہے [تفسیر روح المعانی: ١٤/١٤٨،سورہ النحل]

حضرت جابر (رضی الله عنہ) سے روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عالم (دینی بات جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ جانتے ہوے خاموش رہے اور جاہل (نہ جاننے والے) کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اپنی جہالت پر خاموش رہے، الله تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: پس تم سوال کرو اہل علم (علماء) سے، اگر تم نہیں علم رکھتے (النحل:٤٣) [المعجم الأوسط للطبراني [بَابُ الْمِيمِ ]مَنِ اسْمُهُ مُحَمّدٌ، رقم الحديث: ٥٥١١(٥٣٦٥) بحوالہ تفسیردرمنثور] تابعین میں، جیسے عطاء، حسن بصریؒ وغیرہ سے بھی "’’اولی الامر‘‘ " کے معنی اہلِ علم اور اصحاب فقہ کے منقول ہیں، آیتِ مذکورہ کے علاوہ قرآن پاک کی بعض اور آیات (النساء، التوبۃ) میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے، حدیثیں تواس پرکثرت سے شاہد ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرزِ عمل بھی تقلید مطلق کی تائید میں ہے۔

تقلیدِ شخصی

تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے، یعنی کسی ناواقف عامی (غیر عالم شخص) کا کسی متعین شخص کے علم و کمال پر بھروسہ کر کے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں.

مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم) نے حضرت معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا حاکم بناکر بھیجا؛ تاکہ وہ لوگوں کو دین کے مسائل بتائیں اور فیصلہ کریں:

"عَنْ مُعَاذٍ اَنّ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ بَعَثَ مُعَاذًا ِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِيا(الیٰ آخر الحدیث ) ، وَقَالَ : الْحَمْدُ لِلّهِ الَذِي وَفّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللّهِ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللّهِ " (سنن ابوداؤد:جلد سوم:

فیصلوں کا بیان :قضاء میں اپنی رائے سے اجتہاد کرنے کا بیان ، (جامع ترمذی ،حدیث نمبر:۱۲۴۹)

ترجمہ: جب حضور اکرم نے حضرت معاذ کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا فرمایا تم کس طرح فیصلہ کرو گے جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا آپ نے فرمایا اگر تم اللہ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر سنت رسول میں بھی نہ پاؤ تو اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو ،انہوں نے کہا کہ اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور فرمایا کہ اللہ ہی کیلئے تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول (معاذ) کو اس چیز کی توفیق دی جس سے رسول اللہ راضی ہیں۔ پس گویا اہلِ یمن کو حضرتِ معاذؓ کی شخصی تقلید کا حکم دیا گیا.

کن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے؟

درج بالا حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اگر مجتہد کوئی مسئلہ کتاب و سنت میں نہ پائے تو اجتہاد کرسکتا ہے اور لوگوں کے لیے اس کی اتباع و تقلید ضروری ہوگی.

مثال کے طور پر چند جدید مسائل اجتہادیہ؛ جن کا واضح حکم نہ قرآن پاک میں ہے اورنہ حدیث شریف میں:

(۱) نکاح بذریعہ ٹیلیفون (۲) چاند کی شہاد ت بذر یعہ ٹیلیفون (۳) خون کا عطیہ (۴) اعضاء کی پیوندکاری (۵) حالت روزہ میں انجکشن کا مسئلہ(۶) لاؤڈاسپیکر پر اذان کا مسئلہ(۷) ہوائی جہاز میں نماز (۸)کرنسی کی مالی حیثیت (۹) ہوائی اڈوں پر انسانی اسکیننگ (۱۰) ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ وغیرہ

کن کی تقلید کی جائے ؟

ظاہر ہے مسائل اجتہاديہ میں مجتہد کی ہی تقلید کی جائے گی اور مجتہد کا اعلان ہے کہ ’’ قیاس مظہر لامثبت‘‘ (شرح عقائد نسفی)

یعنی ہم کوئی مسئلہ اپنی ذاتی رائے سے نہیں بتاتے بلکہ ہر مسئلہ کتاب و سنت و اجماع سے ہی ظاہر کر کے بیان کرتے ہیں

کون تقلید کرے؟

مسائل اجتہادیہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں:

جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب و سنت پر عمل کرے گااس کے لئے کسی کی تقلید جائز نہیں بوجہ تفہیم کتاب و سنت۔

اور غیر مجتہد اس وجہ سے تقلید کریگا کہ اس میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی، اس لیے وہ کتاب و سنت کے ماہرین سے پوچھ لیتاہےکہ کتاب و سنت کا کیا حکم ہے۔ اس طرح کے عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ واضح رہےکہ مقلد ان مسائل کو ان کی ذاتی رائے سمجھ کرعمل نہیں کرتا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد اللہ تعالیٰ اور مراد رسول صلی الله علیہ وسلم سے آگاہ کیا ہے۔

تقلید شخصی حیات نبوی (صلی الله علیہ وسلم) میں

ایک اور موقع پر رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

حَدّثَنَا مُوسَى بْنُ إسْمَاعِيل ، حَدّثَنَا اَبَانُ ، حَدّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدّثَنِي أَبُو حَسّانَ ، عَنْ الْاسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، انَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ ، وَرّثَ اخْتًا وَابْنَةً فَجَعَلَ لِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا النِّصْفَ ، وَهُوَ بِالْيَمَنِ وَنَبِيّ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ يَوْمَئِذٍ حَيٌ.(تیسیر کلکتہ : صفحہ٣٧٩، کتاب الفرائض، فصل ثانی)

ترجمہ: اسود بن يزيد سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس معاذ (بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یمن میں معلم اور امیر ہو کر آئے تو ہم نے ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جو فوت ہوگیا اور ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف اور بہن کو نصف دلایا۔

فائدہ: اس حدیث سے تقلید شخصی ثابت ہوتی ہے اور وہ بھی حیات رسول الله صلے الله علیہ وسلم میں. کیونکہ جب رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے معاذ(رضی اللہ عنہ) کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تھا تو اہل یمن کو اجازت دی تھی کہ تعلیم احکام اور فیصلوں کے لئے ہر مسئلے میں حضرت معاذ (رضی الله عنہ) سے رجوع کریں اور یہی تقلیدشخصی ہے، جیسا ابھی اوپر بیان ہوا.

تقلیدِ شخصی حیات نبوی (صلی الله علیہ وسلم) کے بعد

عَنْ مُحَمّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنْ ابِيهِ : " انَ امْرَاةً سَالَتْ رَسُولَ اللّهِ صَلّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَمَ شَيْئًا ، فَامَرَهَا انْ تَرْجِعَ الَيْهِ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللّهِ ، ارَاَيْتَ انْ جِئْتُ فَلَمْ اجِدْكَ ؟ قَالَ ابِي : كَانَهَا تَعْنِي الْمَوْتَ ، قَالَ : فَانْ لَمْ تَجِدِينِي فَاتِي ابَا بَكْرٍ " (صحيح مسلم(كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل ابي بكر الصديق رضي اللہ عنہ )

ترجمہ: حضرت محمد بن جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کا سوال کیا تو آپ نے اس عورت کو دوبارہ آنے کے لئے فرمایا، اس عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر میں پھر آؤں اور آپ کو (موجود) نہ پاؤں؟ (یعنی آپ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو) آپ نے فرمایا اگر تو مجھے نہ پائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کے پاس آ جانا (اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰیٰ عنہ کی خلافت بلا فصل اور تقلیدشخصی ثابت اور واضح ہے اس عورت کو آپ صلے الله علیہ وسلم سے مسئلہ ہی تو پوچھنا تھا۔اس حدیث میں سوال کا لفظ واضح لکھا ہے۔

من بعدی" سے ان کی تقلیدشخصی ثابت اور واضح ہے، پس ایک معین شخص کی اتباع کا حکم فرمایا اور یہ کہیں نہیں فرمایا کہ ان سے احکام کی دلیل بھی دریافت کرلیا کرنا اور نہ یہ عادت مستمرہ (جاریہ) تھی کہ دلیل کی تحقیق ہر مسئلے میں کی جاتی ہو اور یہی تقلید شخصی ہے.اورحقیقت تقلید شخصی یہ ہےکہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش آئے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی مرجح کی وجہ سے ایک ہی عالم سے رجوع کیا کرے ۔

ایک دوسری حدیث شریف میں ہے،جس کا امام بخاری اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔

ترجمہ: حضرت هذيل بن شرحبيل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا پھر وہی مسئلہ حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ سے پوچھا گیا اور حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے فتویٰ کی بھی ان کو خبر دی گئی تو انہوں نے اور طور سے فتویٰ دیا، پھر ان کے فتویٰ کی خبر حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کو دی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک یہ عالم متبحر تم لوگوں میں موجود ہیں تم مجھ سے مت پوچھا کرو.- صحيح البخاري ، كِتَاب الْفَرَائِضِ ، بَاب مِيرَاثِ ابْنَةِ الِابْنِ مَعَ بِنْتٍ، رقم الحديث: (۶۲۶۹)

فائدہ: حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ کے اس فرمانے سے کہ ان کے ہوتے ہوے مجھ سے مت پوچھو، ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ہر مسئلہ میں ان سے پوچھنے کے لئے فرمایا ہے اور یہی تقلید شخصی ہے کہ ہر مسئلہ میں کسی مرجح کی وجہ سے کسی ایک عالم سے رجوع کر کے عمل کرے.

صحابہ کرام رضی الله عنھم اور تقلید

اس بات میں ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں کہ نبی صلے الله علیہ وسلم کے جملہ صحابہ کرام رضی الله عنہ شرف صحبت نبوی کے فیض و برکت سے سب کے سب عادل، ثقه ، متقی ، خداپرست اور پاکباز تھے، مگر فہم قرآن، تدبرحدیث اور تفقہ فی الدین میں سب یکساں نہ تھے، بلکہ اس لحاظ سے ان کے آپس میں مختلف درجات اور متفاوت مراتب تھے.

امام الفقیہ اور احد الاعلام حضرت امام مسروق رح (المتوفی ٢٣-ہجری) سے مروی ہے کہ میں نے اصحاب رسول الله صلے الله علیہ وسلم کے علم کی خوشبو حاصل کی تو میں نے ان کے علم کی انتہا چھ (٦) پر پائی، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبدالله، حضرت معاذ(بن جبل)، حضرت ابو درداء اور حضرت زید بن ثابت رضی الله عنہم. میں نے ان کے علم کی خوشبو پائی تو مجھے تو مجھے ان کے علم کی انتہا حضرت علی اور حضرت عبدالله (بن مسعود) رضی الله عنہم پر ملی(طبقات ابن سعد:٢/٢٥تذكرة الحفاظ:١/٢٤ و مقدمه ابن صلاح:٢٦٢ مع شرح العراقي، مستدرك حاكم:٣/٤٦٥، اور اس روایت پر امام حاکم اور امام ذہبی خاموش رہے یعنی جرح نہیں فرمائی)

معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی فقہ دین پر عمل پیرا تھے اور اپنے دور کے چھے بڑے معتبر اصحاب کی تقلید کرتے تھے. کتب احادیث مصنف عبد الرزاق، مصنف ابن ابی شیبہ، تہذیب الآثار طبری، شرح معانی الآثار طحاوی، کتاب الآثار امام محمّد، کتاب الآثار امام ابی یوسف میں صحابہ اور تابعین کے ہزارہا فتاویٰ درج ہیں جن کے ساتھ دلائل مذکور نہیں، انہوں نے بلاذکردلیل یہ فتاویٰ صادر فرماتے، اور سب لوگوں نے بلامطالبہ دلیل ان پر عمل کیا، یہ عمل اسلام میں پہلے دن سے آج تک تواتر سے ثابت ہے۔

تقلید پر اجماع صحابہ

اسی لئے امام غزالی (حنبلی) فرماتے ہیں: "تقلید تو اجماع صحابہ سے بھی ثابت ہے، کیونکہ وہ عوام کو فتویٰ دیتے اور عوام کو یہ حکم نہیں دیتے تھے کہ تم (خود عربی دان ہو) اجتہاد کرو، اور یہ بات ان کے علماء اور عوام کے تواتر سے مثل ضروریات دین ثابت ہے" [المستصفى:٢/٣٨٥]

ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع

ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر امت کا اجماع ہوچکا ہے، اور امت کے اجماع کی دو صورتیں ہیں:

اول یہ کہ امت کے قابل قدر علماء متفق ہوکر یہ کہیں کہ ہم نے اس مسئلہ پر اجماع کرلیا ہے، جب کہ مسئلہ کا تعلق قول سے ہو، یا اگر مسئلہ کا تعلق کسی فعل سے ہے تو وہ اس فعل پر عمل شروع کردیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ امت کے کچھ بڑے علماء مذکورہ طریقہ پر اجماع کریں اور دوسرے قابل قدر علماء اس پر سکوت کریں اور اس پر ان کی طرف سے کوئی رد نہ ہو اس کو اجماعِ سکوتی کہتے ہیں۔

اجماع کی یہ دونوں صورتیں معتبر ہیں۔ نور الانوار میں ہے:

رکن الإجماع نوعان: عزیمة وھو التکلم منھم بما یوجب الاتفاق أي اتفاق أي الکل علی الحکم بأین یقولوا أجمعنا علی ھذا إن کان ذلک الشيء من باب القول أو شروعھم في الفعل إن کان من بابہ ورخصة ، وھو أن یتکلم أو یفعل البعض دون البعض وسکت الباقون منھم ولا یردون بعد مضي مدة التأمل وھی ثلاثة أیام ومجلس العلم ویسمی ھذا إجماعا سکوتیًا وھو مقبول عندنا : ۲۱۹۔

چنانچہ جب علماء نے دیکھا کہ جو تقلید کا منکر ہوتا ہے وہ شتر بےمہار کی طرح زندگی بسر کرتے ہوئے اپنی خواہشات پر عمل کرتا ہے، اس لیے علماء نے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید پر اجماع کیا، اگرچہ ان کا یہ اجماع ایک جگہ متفق ہوکر نہیں ہوا؛ لیکن ان سب کے ائمہ اربعہ میں کسی ایک کی تقلید کرنے اور عدم تقلید پر نکیر کرنے کی وجہ سے یہ اجتماع منعقد ہوا ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں بہت سے بڑے بڑے علماء نے عدم

تقلید پر اپنی آراء کا اظہار کیا اور امت کے سامنے عدم تقلید کے مفاسد کو کھل کر بیان کیا۔ اس کی چند مثالیں یہ ہیں:

(۱) علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وعلی ھذا ما ذکر بعض المتأخرین منع تقلید غیر الأربعة لانضباط مذاھبھم وتقلید مسائلھم وتخصیص عمومہا ولم یدر مثلہ في غیرھم الآن لانقراض اتباعھم وہو صحیح۔

ترجمہ: اور اسی بنیاد پر ائمہ اربعہ ہی کی تقلید متعین ہے نہ کہ دوسرے ائمہ کی، اس لیے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب مکمل منضبط ہوگئے ہیں اور ان مذاہب میں مسائل تحریر میں آچکے ہیں اور دوسرے ائمہ کے مذاہب میں یہ چیز نہیں ہے اور ان کے متبعین بھی ختم ہوچکے ہیں اور تقلید کا ان یہ چار اماموں میں منحصر ہوجانا صحیح ہے۔ (التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)

(۲) علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:

وما خالف الأئمة الأربعة فھومخالف للإجماع

یعنی ائمہ اربعہ کے خلاف فیصلہ اجماع کے خلاف فیصلہ ہے۔ (الأشباہ: ۱۳۱)

(۳) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أما في زماننا فقال أئمتنا لا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة: الشافعي ومالک وأبي حنیفة وأحمد رضوان اللہ علیھم أجمعین

یعنی ہمارے زمانے میں مشائخ کا یہی قول ہے کہ ائمہ اربعہ یعنی امام شافعی، مالک، ابوحنیفة اور احمد ہی کی تقلید جائز ہے اور ان کے علاوہ کسی اور امام کی جائز نہیں (فتح المبین ۱۶۶)

(۴) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

و أما في ما بعد ذلک فلا یجوز تقلید غیر الأئمة الأربعة

یعنی دورِ اول کے بعد ائمہ اربعہ کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں۔ (الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)

(۵) مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فإن أھل السنة والجماعة قد افترق بعد القرن الثلثة أو الأربعة علی أربعة المذاھب، ولم یبق في فروع المسائل سوی ھذہ المذھب الأربعة فقد انعقد الإجماع المرکب علی بطلان قول من یخالف کلھم․

یعنی تیسری یا چوتھی صدی کے فروعی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے مذاہب رہ گئے، کوئی پانچواں مذہب باقی نہیں رہا، پس گویا اس امر پر اجماع ہوگیا کہ جو قول ان چاروں کے خلاف ہے وہ باطل ہے (تفسیر مظہری:۲/۶۴)

(۶) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وھذہ المذاھب الأربعة المدونة المحررة قد اجتمعت الأمة أو من یعتد بھا منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا یعنی یہ مذاہب اربعہ جو مدون ومرتب ہوگئے ہیں، پوری امت نے یا امت کے معتمد حضرات نے ان مذاہب اربعہ مشہورہ کی تقلید کے جواز پر اجماع کرلیا ہے۔ (اور یہ اجماع) آج تک باقی ہے۔ (حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)

)شارح مسلم شریف علامہ نووی فرماتے ہیں:

أما الاجتہاد المطلق فقالوا اختتم بالأئمة الأربعة الخ یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ ائمہ اربعہ پر ختم ہوگیا حتی کہ ان تمام مقتدر محققین علماء نے ان چار اماموں میں سے ایک ہی امام کی تقلید کو امت پر واجب فرمایا ہے اور امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (نور الہدایہ: ۱/۱۰)

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسؤلا (القرآن۔ ۱۷:۶)

جس بات کا تجھے علم نہ ہو اس کی پیروی مت کر ،کیونکہ کان آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کی پوجھ گچھ کی جانے والی ہے۔

اصل تو یہی ہے کہ ہر ایمان والا خود نصوص قرآنیہ اور احادیث جو کہ قرآن کی شرح ہیں سمجھنے کی کوشش کرے ،اور اس سے استنباط کرے ،مگر چونکہ آیت مذکورہ میں خطاب عام ہے کسی شخصے خاص یا جماعت سےخطاب نہیں ہے ،اس لئے جس نے بھی اس خطاب کو سنا اس پر لازم ہوگیا کہ وہ اس پر ایمان لائے ،اب چونکہ اس خطاب کو سمجھنے کی ہر ایک میں صلاحیت نہیں ہوتی ہے، اسلئے تقلید عاجزی اور مجبوری کی وجہ سے نا گزیر ہوجاتی ہے ،جب یہ معلوم ہوگیا کہ تقلید نام مجبوری کا ہے ، تو یہ بھی معلوم رہے کہ مقلد کے لئے لازم ہے کہ وہ کسی ایک مجتہد کی تقلید کرے ،ایسا نہیں کہ جہاں سے بھی اپنا مطلب نکلے اسی کی بات مان لی ،یہ جائزہے اس وجہ سے کہ ایسا کرنا اجماع کے خلاف ہے ،ہوائے نفسانی ہے، اور نفس کی پیروی کرنا حرام ہے ،اس وجہ سے کہ اسنے احکام الٰہی کی پیروی نہ کرکے اپنی خواہشات کی پیروی کی ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

’فلا تتبعو الھویٰ

پس اپنے خواہشات کی پیوری مت کر

خلاصہ کلام مقلد کی دو قسم ہیں (۱)عامی (۲) متبع

عامی وہ جو دلیل شرعی کی معرفت کے بغیر مجتہد کے قول بوجہ اعتماد کلی کے عمل کرے ،

متبع وہ جس کو بعض شرعی دلائل کی معرفت ہوتی ہے ،اور اسی معرفت کی بنیاد پر مجتہد کی تقلید کرتا ہے، لیکن اس کے پاس اتنا علم نہیں ہوتا کہ وہ خود اجتہاد کرے ۔بھر دونوں قسم کے عاملین بوجہ اتباع فرمان الٰہی مستحق اجر ہونگے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

دعا کا طالب:
عابد الرحمٰن بجنوری

انڈیا